سیاست اور سیلاب -- آئیں متحد ہوجائیں

10 ستمبر 2014
راولپنڈی میں ایک گھرانہ اپنے تباہ شدہ گھر کے ملبے پر کھڑا ہے — فوٹو اے ایف پی
راولپنڈی میں ایک گھرانہ اپنے تباہ شدہ گھر کے ملبے پر کھڑا ہے — فوٹو اے ایف پی
لاہور میں چھت گرنے کے باعث ہلاک ہونے والوں کی لواحقین غم کا اظہار کرتے ہوئے — 4 ستمبر 2014 — فوٹو اے پی
لاہور میں چھت گرنے کے باعث ہلاک ہونے والوں کی لواحقین غم کا اظہار کرتے ہوئے — 4 ستمبر 2014 — فوٹو اے پی
لاہور کے شہری ڈوبی ہوئی سڑکوں میں گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں چلا رہے ہیں — 4 ستمبر 2014 — فوٹو اے پی
لاہور کے شہری ڈوبی ہوئی سڑکوں میں گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں چلا رہے ہیں — 4 ستمبر 2014 — فوٹو اے پی
لاہور کے لکشمی چوک کا بارش کے بعد ایک منظر — فوٹو اے پی
لاہور کے لکشمی چوک کا بارش کے بعد ایک منظر — فوٹو اے پی
ریسکیو اہلکار ایک عمر رسیدہ خاتون کو محفوظ مقام کی طرف لے جارہا ہے — فوٹو اے پی
ریسکیو اہلکار ایک عمر رسیدہ خاتون کو محفوظ مقام کی طرف لے جارہا ہے — فوٹو اے پی
پاک فوج ہیلی کاپٹر کی ذریعے پھنسے ہوئے لوگوں کو نکال رہی ہے — فوٹو آئی این پی
پاک فوج ہیلی کاپٹر کی ذریعے پھنسے ہوئے لوگوں کو نکال رہی ہے — فوٹو آئی این پی

اسلام آباد میں جاری دھرنے، آپریشن ضرب عضب، اور اب ایک تباہ کن سیلاب، پاکستانیوں کے لیے متحد ہونے کا اس سے بہتر کوئی وقت نہیں ہو سکتا۔

دریائے راوی، چناب، ستلج، اور سندھ کا پانی سب کے لیے تباہی کا پیغام لائے گا، چاہے کوئی پی ٹی آئی سے تعلق رکھتا ہو، پی پی پی سے، یا مسلم لیگ ن سے۔ دریاؤں کی یہ خطرناک موجیں اندھی ہیں، اور ہماری فوری توجہ چاہتی ہیں۔

ہمیں حساب کتاب کو پھر کبھی کے لیے مؤخر کر کے سیلاب میں گھرے اپنے ہم وطنوں کی مدد کو پہنچنا چاہیے۔

ہم ابھی 2010 کے سیلاب کی تباہ کاریوں سے پوری طرح باہر بھی نہیں آئے تھے کہ اس سال پھر سیلاب آگیا، اور اب یہ قومی ایمرجنسی بنتا جا رہا ہے۔

اب تک کشمیر اور پنجاب میں سیلاب نے 200 سے زیادہ لوگوں کی جانیں لی ہیں، جبکہ لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ گوجرانوالہ اور سیالکوٹ ریجن میں اتوار کے روز 600 دیہات زیر آب آگئے، جو کہ دنیا بھر میں آنے والی دوسری تباہیوں کے مقابلے میں کافی خوفناک ہے۔

2010 میں جب تقریباً 10 لاکھ لوگ اپنی جانیں بچانے کے لیے ٹھٹھہ میں مکلی کی پہاڑیوں پر منتقل ہوئے، تو میں وہیں موجود تھا۔ مکلی کے تاریخی قبرستان میں شب و روز گزارتے ہوئے ان بچوں اور عورتوں کے چہروں کے تاثرات میں کبھی بھی نہیں بھول سکتا۔

میں تو پنجاب اور کشمیر کے ان لوگوں کے بارے میں سوچ کر بھی لرز جاتا ہوں، کہ کس طرح ایک رات اچانک پانی ان کے گھروں کے ساتھ ساتھ انکی امیدوں اور انکے خوابوں کو بہا لے گیا ہو گا۔

2010 میں پورا ملک آرمی، نیوی، اور ایئر فورس کے ہمراہ سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے کھڑا تھا۔ صرف کچھ ہی دنوں میں لاکھوں لوگوں کو خطرے والی جگہوں سے باہر نکالا گیا، جبکہ لاکھوں لوگوں نے ان اجنبی متاثرین کی دل کھول کر امداد کی۔

لیکن مجھے ڈر ہے، کہ حالیہ سیلاب بھلے ہی 2010 کے سیلاب سے شدت میں کم ہے، لیکن اس بار ہم لوگ ایک دوسرے کے اتنے قریب نہیں جتنے 2010 میں تھے۔

ہم میں سے ہر ایک مختلف پرچم اٹھائے ہوئے ہے۔

جیسے جیسے میں یہ سطور لکھ رہا ہوں، ویسے ویسے ٹی وی پر کمر تک پانی میں ڈوبے لوگوں کے مناظر دکھائے جا رہے ہیں، وہ پانی جو ملبے، مردہ جانوروں، اور بیماریوں سے بھرا ہوا ہے۔ میرے لیے تو یہ تصور بھی کرنا محال ہے۔ کہ آخر کوئی شخص صرف کچھ لمحوں کے نوٹس پر کیسے اپنا گھر بار چھوڑ سکتا ہے۔

اگر ایک دن کے لیے بھی لائٹ چلی جائے، تو پریشانی اور آرام کی کمی کی وجہ سے ہماری حالت غیر ہوجاتی ہے۔ لیکن ہمارے سیلاب سے متاثرہ بھائیوں اور بہنوں کے لیے یہ پریشانی ایک ساتھی کی طرح ہے، جو انکا ساتھ معلوم نہیں کب چھوڑے۔

مدد کے لیے بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ ہم نے یہ سب پہلے بھی کیا ہے، اور ہم ایک بار پھر یہ کر سکتے ہیں۔

لیکن سب سے پہلے ہمیں متحد ہونا پڑے گا۔

ہمیں دوسرے فریقوں کے لیے پیدا کی ہوئی نفرت کو ایک طرف کرنا ہوگا۔ آج کے اس انتہائی جانبداری کے وقت میں ایسا کہنا آسان اور کرنا مشکل ہے، لیکن اس کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔

حالیہ کچھ دنوں میں پاکستان کو مسلسل بری خبروں کا سامنا ہے۔ طالبان، معیشت، سیاسی بحران، اور اب یہ سیلاب۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ وہی ملک ہے، جس کا فخر ملالہ جیسی باہمت بچی، اعتزاز حسن جیسا بہادر بچہ، اور عبدالستار ایدھی کی طویل اور نا ختم ہونے والی جدو جہد ہے۔

آج ہم آئی ڈی پیز، جنہوں نے ہماری بہتری کے لیے سب سے زیادہ قربانی دی ہے، کو بھی بھلا چکے ہیں۔ ہمیں ملک بھر کے لوگوں کی جانب اپنی ذمہ داری کو کبھی بھولنا نہیں چاہیے۔

ایک لمحے کے لیے اپنے صوبائی، سیاسی، اور لسانی اختلافات کو بھلا دیتے ہیں۔ ہم سندھ میں رہتے ہوئے بھی کشمیریوں کی تکلیف محسوس کر سکتے ہیں، اور پنجابی ہوتے ہوئے بھی پشتونوں اور آئی ڈی پیز کی مشکلات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

ہم سب انسان ہیں، اور ہم تکلیف ایک ہی طرح محسوس کرتے ہیں۔ آئیں ہم دوسروں کا درد محسوس کریں۔

جب سیلاب کا خطرہ ٹل جائے، اور ہمارے لوگ بچائے جا چکیں، تب ہم اپنے بااصول سیاسی اختلافات کو جاری رکھ سکتے ہیں، لیکن ہمیں خود کو یاد دلانا ہوگا، کہ ہم اختلاف صرف اس لیے کر سکتے ہیں، تاکہ پاکستان بھر میں لوگوں کی مشکلات کو ایک دوسرے سے زیادہ بہتر طریقے سے حل کر سکیں۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Sadaf Sep 15, 2014 11:57am
Tax deny k bad kia guarantee hai k yeh hamara paisa Swiss bank main ni jaega???