ورلڈ کپ 1999ء کے فائنل میں شکست کا داغ دھونے کے لیے پاکستان 2003ء میں جنوبی افریقہ پہنچا اور آسٹریلیا، انگلینڈ اور ہندوستان کے خلاف شکست کھا بیٹھا، پھر زمبابوے سے اہم ترین مقابلہ بارش کی نذر ہوتے ہی پاکستان پہلے ہی مرحلے میں عالمی اعزاز کی دوڑ سے باہر ہوگیا۔ء1992 کے چیمپیئن کو اس بدترین نتیجے کا کفارہ ادا کرنے کے لیے مزید چار سال کا صبر آزما انتظار کرنا تھا۔ وسیم اکرم اور وقار یونس سمیت کئی اہم کھلاڑی 2003ء کی شکست کے بعد کرکٹ کو خیرباد کہہ گئے اور باؤلنگ کا شعبہ اب نئے ہاتھوں میں آ چکا تھا۔ پاکستان کی باؤلنگ کے سرخیلا اسپیڈ اسٹار شعیب اختراور ان کے ہم نشیں محمد آصف تھے۔

شعیب اور آصف کی جوڑی کسی طرح اپنی صلاحیتوں میں گلین میک گرا اور بریٹ لی سے کم نہ تھی لیکن ورلڈ کپ 2007ء سے محض چند مہینے پہلے دونوں باؤلرز ممنوعہ ادویات کے استعمال پر دھر لیے گئے اور پاکستان کرکٹ بورڈ نےاُن پر پابندیاں عائد کردیں۔ تمام تر اپیلوں اور کوششوں کے باوجود دونوں ورلڈکپ 2007ء میں نہ کھیل سکےاور پھر دوسرے درجے کا پاکستانی باؤلنگ اسکواڈآئرلینڈ تک کو شکست نہ دے سکا۔ یوں پاکستان ایک مرتبہ پھر پہلے ہی راؤنڈ میں عالمی کپ سے باہر ہوگیا۔ نتیجے سے دلبرداشتہ کوچ باب وولمر اس صدمے کو نہ جھیل پائے اور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

دو بدترین نتائج کے بعد پاکستان کو امید تھی کہ 2011ء میں اپنے ہی میدانوں پر ورلڈ کپ کھیلتے ہوئے بہتر نتائج پیش کریں گے۔ پہلا دھچکا میزبانی سے محروم ہونے کی صورت میں ملا جو 2009ء میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر دہشت گردوں کے حملے کا منطقی نتیجہ تھی لیکن پاکستان کی تیاریو ں کو سب سے بڑی ضرب ورلڈ کپ 2011ء سے چند مہینے قبل انگلینڈ میں لگی جب پاکستان کے دونوں ٹاپ باؤلرز محمد عامر اور محمد آصف اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میں دھر لیے گئے۔

کپتان سلمان بٹ سمیت تینوں پر طویل پابندیاں عائد کردی گئیں، پاکستان ایک مرتبہ پھر ورلڈ کپ میں اپنے اہم ترین باؤلرز کے بغیر کھیلا۔ برصغیر کی اسپنرز کے لیے مددگار وکٹوں پر پہلے کی نسبت نتائج بہتر پیش کیے اور سیمی فائنل تک رسائی حاصل کی لیکن ورلڈ کپ جیتنا پاکستان کے بس کی بات نہ تھی۔ وجہ؟ دوسرے درجے کا باؤلنگ اٹیک۔

اب ورلڈ کپ 2015ء میں صرف چھ مہینے باقی ہیں۔ وہی میدان جہاں پاکستان نے 22 سال قبل پہلی اور آخری مرتبہ ورلڈ کپ جیتا تھا۔اس مرتبہ باؤلنگ میں پاکستان کی تمام تر امیدیں سعید اجمل سے وابستہ تھیں جو اس وقت ون ڈے کرکٹ میں نمبر ایک باؤلر ہیں اور گزشتہ تین سالوں سے سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے باؤلرز میں شامل ہیں۔ صرف ون ڈے ہی نہیں ٹیسٹ اور ٹی ٹوئنٹی میں بھی وہ ٹاپ 10 باؤلرز میں سے ایک ہیں لیکن ایک مرتبہ پھر ورلڈ کپ سے چندمہینے پہلے پاکستان کواپنے اہم ترین باؤلر سے محروم کردیا گیا۔

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے سعید اجمل کے باؤلنگ ایکشن کر غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہیں ہر طرح کی باؤلنگ کرنے سے روک دیا ہے۔ ان کا صرف 'دوسرا' ہی نہیں بلکہ عام آف اسپن اور دیگر تمام گیندیں پھینکتے ہوئے ایکشن قانونی حدود سے تجاوز کرتا پایا گیا جو ایک حیران کن امر ہے۔ فیصلے نے اس روایت کو برقرار رکھا کہ ہر مرتبہ پاکستان ورلڈ کپ اپنے اہم ترین باؤلر کے بغیر کھیلے۔

اس تازہ پابندی نے 111 ون ڈے میچز میں 22.18 کے شاندار اوسط کے ساتھ 183 وکٹیں لینے والے سعید اجمل کے کیریئر کو خطرے سے دوچار کردیا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا فیصلہ ضرور کیا ہے لیکن یہ ایک بہت بڑا جوا ہوگا کیونکہ اگر اپیلمیں ناکامی ہوئی تو سعید اجمل پر کافی عرصے کے لیے پابندی لگ سکتی ہے اور ممکنہ طور پر یہ تقریباً 37 سال کے سعید اجمل کے انٹرنیشنل کیریئر کا خاتمہ ہوگا لیکن پاکستان کےپاس یہ جوا کھیلنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ۔

لیکن سب سے بڑا سوال کہ اگر سعید اجمل بچ گئے تو کیا وہ دوبارہ پہلے جیسی کارکردگی دہرا پائیں گے؟ کیا گزشتہ چند مہینوں سے ان کی پرفارمنس میں آنے والا زوال رک پائے گا؟ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2010ء کے سیمی فائنل میں پاکستان کی شکست کا سبب بننے کے بعد جس طرح سعید اجمل بین الاقوامی کرکٹ میں واپس آئے اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ وہ بہت مضبوط اعصاب رکھتے ہیں اور باآسانی شکست تسلیم نہیں کرتے لیکن اگر سعید اجمل کا باؤلنگ ایکشن کلیئر نہ ہوسکا تو یہ بات یقینی ہے کہ پاکستان کے عالمی چیمپئن بننے کے جو پانچ سے دس فیصد امکانات تھے، وہ بھی تقریباً صفر ہو جائیں گے۔ اپنے نمبر ایک باؤلر کے بغیر پاکستان کی باؤلنگ 'بے دانت کا شیر' ثابت ہوگی۔

گزشتہ چند مہینوں میں دوسرے درجے کے آف اسپنرز شین شلنگفورڈ، کین ولیمسن اور سچتراسینانائیکےپر پابندی عائد کرنے کے بعد اب آئی سی سی نے واضح طور پر اعلان کردیا ہے کہ وہ 'دوسرا' گیند پھینکنے والے آف اسپنرز کو برداشت نہیں کرے گا اور اب باقی آف اسپنرز بھی دل تھام کر بیٹھیں کہ اب ان کی باری ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں