بحرِ ہند میں زلزلے کے حالیہ تجربے کے بعد ماہرین نے پاکستان کے سب سے بڑے 2 کروڑ آبادی کے حامل شہر کراچی کے سونامی سے ڈوبنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

اس سے ایک دن قبل انڈونیشیا میں بھی اسی طرز کا ایک ٹیسٹ کیا گیا تھا جس کا مقصد زلزلے کے خطرے سے آگاہ کرنے والے سسٹم کو چیک کرنا تھا جس کو بحر ہند میں 2004 کے سونامی کے بعد نصب کیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ 2004 میں آنے والے اس سونامی میں دو لاکھ 30 ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ہونے والی یہ مشق پاکستان کے ساحلی علاقے مکران بیلٹ پر کی گئی جس میں ریکٹر اسکیل پر نو کی شدت کے حامل زلزلے کو مصنوعی طور پر برپا کیا گیا۔

اس تجربے کی نگرانی کرنے والے چیف میٹرولوجسٹ توصیف عالم نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس تجربے کے نتیجے میں تین سے 23 فٹ بلند لہریں اٹھیں جو ایک سے ڈیڑھ گھنٹے میں کراچی پہنچ سکتی ہیں۔

توصیف نے کہا کہ اس زلزلے کے نتیجے میں پورا شہر ختم ہو سکتا ہے کیونکہ یہ لہریں انتہائی طاقتور ہوں گی۔

انہوں نے بتایا کہ کراچی میں 1945 میں سونامی آیا تھا جس میں کم از کم چار ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

اگر اس طرح کا سانحہ دوبارہ ہوتا ہے تو پاکستان کو قومی سطح پر کافی نقصان اٹھانا پڑے گا کیونکہ کراچی ملک کی مجموعی جی ڈی پی کو 42 فیصد فراہم کرتا ہے۔

توصیف عالم نے بتایا کہ کراچی انتہائی غیر محفوظ ہے کیونکہ یہاں ایک اور سونامی کے خطرات موجود ہیں لیکن ہمیں نہیں معلوم کہ یہ کب آئے گا۔

سونامی آںے کی صورت میں انڈونیشیا، آسٹریلیا اور انڈیا کے مراکز سے متلعقہ ڈیٹا بروقت کراچی کے محکمہ موسمیات کے دفتر میں بھیجا جا سکے گا۔

توصیف عالم نے کہا کہ ہمارا مقصد سونامی کی بروقت اور موثر وارننگ کو یقینی بنانا ہے تاکہ اس صورت میں جن آبادیوں کو خطرات لاحق ہوں وہ بروقت محفوظ مقامات پر منتقل ہو سکیں اور ہم پیغام رسانی کو بہتر بنا سکیں۔

تاہم یہ بات ابھی تک واضح نہیں کہ آیا کراچی میں سونامی سے بچاؤ کی کوئی حکمت عملی موجود بھی ہے یا نہیں اور کیا یہ اس پرہجوم شہر میں قابل عمل ہو گی؟۔

محکمہ موسمیات کے افسر نے کہا کہ ہم اندازہ لگا رہے ہیں کہ اس سلسلے میں کون سے اقدامات قابل عمل اور زیادہ بہتر ہوں گے، جہاں بہتری کی ضرورت ہے وہاں ضروری تبدیلیاں کی جا سکیں اور اس مشق کو مسلسل جاری رکھیں۔

مکران کے ساتھ ساتھ پاکستان کے شمالی اور دیگر پہاڑی علاقوں میں بھی زلزلے آ چکے ہیں۔

اکتوبر 2005 میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں آنے والے 7.6 شدت کے زلزلے میں 73 ہزار سے زائد افراد ہلاک اور ساڑھے تین لاکھ سے زائد بے گھر ہو گئے تھے۔

گزشتہ سال صوبہ بلوچستان کے ضلع آواران میں آنے والے زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر 7.7 ریکارڈ کی گئی تھی، اس زلزلے کے نتیجے میں 376 افراد ہلاک اور ایک لاکھ سے زائد بے گھر ہو گئے تھے۔

تبصرے (3) بند ہیں

muktar mahar Sep 10, 2014 10:12pm
docter and capten plz jo log doob rhe hen humare pakistani bhai bihnen un ki help kren plz inqlab or azadi ese 2 ghnte dance se ata na to dunya main koi gullam nhn hota plz ye drama ab band kren
Suhail Yusuf Sep 10, 2014 10:21pm
میں حیران ہوں کہ اس تجربے میں زلزلے کے پاکستانی ماہرین کو کیوں شامل نہیں کیا گیا؟رپورٹ میں یہ بھی نہیں لکھا کہ کراچی براہِ راست متاثر نہیں ہوگا کیونکہ مکران میں تین ٹیکٹونک پلیٹس ملتی ہیں جو بہت سرگرم ہیں اور 1945 میں مکران میں زلزلے سے سونامی آئی تھی جس سے چار ہزار افرا د ہلاک ہوئے تھے اس لئے کراچی میں سونامی نہیں آئے گی بلکہ وہ مکران سونامی سے متاثر ہوسکتا ہے ۔ ماہرین کی ماڈلنگ کے مطابق اس جگہ زلزلے کے آنے کا دورانیہ 80 سے 100 سال ہوسکتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے کوئٹہ پر توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ وہاں بہت سرگرمی دیکھی جارہی ہے اور پھر کوئٹہ کا تاریخی زلزلہ تو سب کے سامنے ہی ہے۔
m.mehboob Sep 16, 2014 03:51am
Allha pakistan ki hifazat karee kastor pe karachi ki aamin