اجمل کے بغیر ورلڈ کپ جیتنا ممکن

اپ ڈیٹ 16 ستمبر 2014
فائل فوٹو اے ایف پی
فائل فوٹو اے ایف پی

سعید اجمل پر پابندی کیا لگی ہر طرف ایک عجیب سا شور اور واویلا مچ گیا ۔۔۔۔۔ اجمل پر پابندی غلط ہے، یہ آئی سی سی اور بگ تھری کی پاکستان کرکٹ کے خلاف سازش ہے، پاکستان چھ مہینے پہلے ہی ورلڈ کپ سے باہر ہو گیا اور نہ جانے کیا کیا۔

اس سارے شور شرابے اور میں پاکستان کرکٹ کے کرتا دھرتا کچھ ایسا کہہ بیٹھے جو شاید انہیں زیب نہ دیتا تھا بلکہ یقیناً ان کے شایان شان نہیں تھا۔ پی سی بی چیئرمین شہریار خان نے کہا کہ اجمل پر پابندی سے پاکستان کے ورلڈ کپ پلان کو بڑا دھچکا لگا ہے جبکہ سابق کرکٹرز نے تو اجمل کی تعریف میں زمین و آسمان کی قلابیں ملاتے ہوئے اپنے گریبان میں جھانکے بغیر آئی سی سی پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی(جو آج تک جاری ہے)۔

صرف یہی نہیں بلکہ ہمارے کچھ ساتھی تجزیہ کار اور کالم نویس تو اتنے جذباتی ہوئے کہ انہوں نے پاکستان کے ورلڈ کپ میں چانسز ہی صفر کر دیے۔

آئی سی سی پر الزامات کی بوچھاڑ کرنے والے شاید یہ نہیں جانتے کہ ایک روزہ انٹرنیشنل میچوں کے صف اول کے باؤلر کا 2006 میں ڈومیسٹک کرکٹ دوران ہی باؤلنگ ایکشن مشکوک رپورٹ ہوا تھا اور ٹیسٹ امپائر ریاض الدین اس کے شاہد ہیں لیکن بورڈ نے اس معاملے پر بھی ‘سب چلتا ہے’ کے مقولے پر عمل کیا۔

اور پھر ہم کیوں بھول بیٹھے ہیں کہ خود چیئرمین پی سی بی کے مطابق آف اسپنر کا باؤلنگ ایکشن 40 ڈگری سے زیادہ خم کھاتا ہے اور ظاہر ہے 40 اور 15 ڈگری کوئی ایسا فرق نہیں جو کسی ‘سازش’ کا سبب بنے۔

یہ درست کہ اجمل پر پابندی بڑا نقصان ہے لیکن سوال یہ ہے کہ خود کو ورلڈ کلاس باؤلنگ اٹیک کہنے والے ہمارے کرکٹ حکام کی پوری باؤلنگ کیا صرف اجمل کے گرد گھومتی ہے یا اسپنر کے بغیر ہم کچھ کر ہی نہیں سکتے؟ کیا ہم کرکٹ کے سب سے بڑے مقابلے میں صرف ایک کھلاڑی کے بل بوتے پر شرکت کرنے جا رہے تھے؟۔

دوسری اور سب سے اہم بات یہ کہ کیا پاکستانی ٹیم واقعی آف اسپنر کے بغیر ورلڈ کپ نہیں جیت سکتی؟ اگر حقائق پر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات کسی صورت قابل قبول نظر نہیں آتی۔

اس بات یہ کہ آخر ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ اجمل کی عمر 36 سال ہے اور اگر پابندی نہ بھی لگتی، تو بھی وہ زیادہ سے زیادہ دو یا تین سال میں کرکٹ کو یقینی طور پر خیر باد کہہ دیتے۔

اجمل کی پابندی کے بعد ان کے متبادل کے لیے پریشان ہونے والے مہربان یقیناً یہ بات جانتے ہوں گے کہ آف اسپنر کے ساتھ ساتھ شاہد آفریدی ، یونس خان اور مصباح الحق بھی اپنا آخری ورلڈ کپ کھیلیں گے اور ان کا بھی عالمی کرکٹ سے ناطہ جلد ہی ٹوٹ جائے گا لیکن ہم نے اس بات پر غور کرنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی کہ ان تمام کھلاڑیوں کے یکے بعد دیگرے رخصت ہونے کے بعد وہ کون سے کھلاڑی ہوں جو ان کی جگہ لیں گے؟، کیا ہمارے پاس بہتر متبادل موجود ہیں ؟ ان سوالات کا جواب بھی فی الوقت نفی میں ہی ہو گا۔

اجمل کو ورلڈ کپ میں ٹرمپ کارڈ قرار دینے والے شاید یہ بات بھول جاتے ہیں کہ 2015 کے ورلڈ کپ کا انعقاد آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی سرزمین پر ہونے جا رہا ہے جو اپنی تیز اور باؤنسی وکٹوں کے مشہور ہیں، خصوصاً نیوزی لینڈ کی وکٹیں تو فاسٹ باؤلرز کے لیے جنت تصور کی جاتی ہیں جہاں اسپیڈ اور باؤنس کی حامل وکٹوں پر باؤلرز کو کھیلنا بلے بازوں کے لیے کسی کٹھن آزمائش سے کم نہیں اور قابل ذکر امر یہ کہ پاکستان نے جنوبی افریقہ اور ویسٹ انڈیز جیسی بڑی ٹیموں کے خلاف میچز کیوی دیس میں ہی کھیلنے ہیں۔

تنقید کی توپیں نکالنے والے یقیناً یہ بات بھی بھلا بیٹھے کہ پاکستانی باؤلنگ اٹیک ہمیشہ سے ہی اچھے فاسٹ باؤلرز کے لیے مشہور رہا سوائے گزشتہ ایک آدھ سال کے جب محمد حفیظ، اجمل اور شاہد آفریدی پر مشتمل اسپن باؤلنگ اٹیک کا طوطی بولتا رہا۔

موجودہ ٹیم پر نظر دوڑائی جائے تو محمد عرفان، جنید خان، وہاب ریاض، محمد طلحہ، انور علی اور بلاول بھٹی کی صورت میں باصلاحیت فاسٹ باؤلنگ اٹیک موجود ہے جو کسی بھی ٹیم کو ڈھیر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے(اگر فیلڈرز کیچ پکڑیں تو) اور نیوزی لینڈ اور آسٹریلین پچز پر یہ بات زیادہ قابل عمل محسوس ہوتی ہے۔

اب ایک نظر اگر ٹیم پر دوڑائی جائے تو اس وقت حفیظ اور آفریدی جیسے آل راؤنڈرز کی صورت میں دو مستقل اسپنرز موجود ہیں جو اکثر مواقعوں پر اپنے کوٹے کے اوورز احسن طریقے سے مکمل کرتے رہے۔

یقیناً قومی ٹیم ان دونوں کو بٹھانے کا خطرہ تو مول نہیں لے گی تو اگر فائنل الیون میں اجمل کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے تو کیا پاکستانی ٹیم ان تیز وکٹوں پر تین اسپنرز کو کھلانے کا رسک لے گی، اجمل کی صلاحیتوں سے کسی کو انکار نہیں لیکن تیز اور باؤنسی وکٹوں پر دنیا کی کوئی بھی ٹیم تین اسپنرز کے ساتھ میدان میں اترنے کا رسک نہیں لے گی جبکہ آفریدی اور حفیظ پر مشتمل آف اور لیگ اسپن کا مجموعہ کسی بھی ٹیم کو مشکلات میں ڈالنے کے لیے کافی ہے۔

یہاں یہ بات کہنا کسی طور غلط نہیں ہو گا کہ اجمل کو ورلڈ کپ میں ‘تُرپ کا پتہ’ قرار دینے والوں کے پاس درحقیقت عالمی ایونٹ کے لیے کوئی حکمت عملی ہی نہیں ۔

یہاں حیران کن امر یہ کہ اجمل کی پابند پر دہائی دینے یہ سوچنے سے قاصر ہیں کہ آسٹریلین اور نیوزی لینڈ کی سرزمین پر ہونے والے مقابلوں میں پاکستان کو سب سے زیادہ ضرورت ایک فاسٹ باولنگ آل راؤنڈر کی پڑے گی جو آخری اوورز میں تیز رفتاری سے چند رنز بٹورنے کے ساتھ ساتھ پانچ سے چھ اوورز بھی کر سکے۔

کرکٹ کے سب سے بڑے عالمی مقابلے میں گرین شرٹس کو یقینی طور پر ایک فاسٹ باؤلنگ آل راؤنڈر کی کمی مسورس ہو گی کیونکہ بیٹنگ ہمیشہ سے ہی ہمارا مسئلہ رہی ہے اور تیز وکٹوں پر تو ہمارے کھلاڑی آؤٹ ہونے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ ایسے میں انور علی اور حماد اعظم(جو منظر عام سے غائب ہیں) اچھا آپشن ثابت ہو سکتے تھے لیکن ہمیشہ سےلکیر پیٹنے کا عادی کرکٹ بورڈ ایسے کسی بھی آپشن پر غور کرنئے کو تیار نظر نہیں آتا یا انہوں نے اس حوالے سے سوچا ہی نہ ہو۔

اجمل بلاشبہ صف اول کے باؤلر ہیں لیکن ان کے بغیر ورلڈ کپ پلان کو فلاپ کہنے والوں کی یاد دہانی کے لیے عرض کرتا چلوں کہ آف اسپنر اس سے قبل بھی ایک ون ڈے ورلڈ کپ اور چار ٹی ٹوئنٹی ایونٹس میں شرکت کر چکے ہیں ۔ان پانچ میں سے تین ٹورنامنٹ اسپنرز کے لیے جنت تصور کی جانےوالی ایشین وکٹوں پر ہوئے لیکن مجھ یاد نہیں پڑتا کہ ان میں سے کسی ایک بھی موقع پر ہم نے فتوحات کے جھنڈے گاڑے ہوں بلکہ ہر ایونٹ کے بعد ٹیم میں گروپنگ کا پنڈورا باکس کُھلا اور کپتان کو رخصتی کا پروانہ دے کر چھٹی کر دی گئی۔

سب سے اہم ترین بات یہ کہ کرکٹ ورلڈ کپ جیسے ٹورنامنٹ ہمیشہ سے جیت کے جذبے، ٹیم ورک اور قائدانہ صلاحیتوں کے بل بوتے پر جیتے جاتے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ جس ٹیم میں جیت کا جذبہ اور باہمی اتفاق نہ ہو وہ چاہے کتنے ہی اسٹارز سے کیوں نہ سجی ہو لیکن وہ ورلڈ کپ نہیں جیت سکتی جس کی سب سے بڑی مثال 1999 کی پاکستانی ٹیم تھی جو ‘سب کچھ ’ہونے کے باوجود بھی فائنل میں باآسانی ہتھیار ڈال بیٹھی۔

دوسری جانب ٹیم ورک خصوصاً بہترین قائد کی حامل 1975 اور 1979 کی ویسٹ انڈین ٹیم، 1992 میں عمران خان کی زیر قیادت پاکستان، 1996 میں ارجنا رانا ٹنگا کی سری لنکن الیون، ء99 میں اسٹیو وا کی آسٹریلیا اور پھر 2011 میں مہندرا سنگھ دھونی کے ہندوستانی سورماؤں نے تاریخ رقم کی۔

اس سلسلے میں پاکستانی، سری لنکن اور 2011 کی انڈین ٹیم کی فتوحات مکمل ٹیم ورک، شاندار جارحانہ قیادت اور حکمت عملی کا خوبصورت امتزاج تھیں۔

ء2011 میں دھونی الیون کے کمزور باؤلنگ اٹیک کے باعث میزبان ملک کو کوئی بھی حتمی فیورٹ ماننے کو تیار نہ تھا لیکن دھونی کی شاندار قائدانہ صلاحیت اور جیت کے جذبے سے سرشار ٹیم اپنی ہی سرزمین پر ورلڈ کپ جنےان والی دنیا کی پہلی ٹیم کے طور پر اُبھر کر سامنے آئی۔

اگر قومی ٹیم کو بھی ورلڈ کپ میں مثبت تاریخ رقم کرنی ہے تو اسے جیت کے جذبے کے ساتھ بہترین قیادت بھی درکار ہو گی، قومی ٹیم کے پاس باصلاحیت کھلاڑیوں کی کمی نہیں اور یہ ورلڈ کپ جیتنے کی بھی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں، اگر جیت کےجذبے سے سرشار ٹیم کے قائد مصباح(امید ہے کہ ورلڈ کپ تک وہی کپتان رہیں گے) نے اپنے تین سے چار سالہ سالہ قائدانہ تجربے کا بھرپور استعمال کیا تو کوئی شک نہیں یہ ٹیم دوسری بار آسٹریلین سرزمین پر کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔

درحقیقت کوئی کھلاڑی یا ٹیم فیورٹ نہیں ہوتی بلکہ فتح کسی خاص ایونٹ یا دن صلاحیت سے بڑھ کر کھیل پیش کرنے والی ٹیم کے قدم چومتی ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Jibran T. Siddiqui Sep 16, 2014 10:14pm
زبردست تحریر۔ وہاں کی وکٹیں بے شک فاسٹ بولرز کے لئے ہیں لیکن دیکھیئے گا پاکستانی ٹیم وہاں بھی اسپنرز کو وکٹیں دے رہی ہوگی۔ باقی عمدہ تحریر