پی ٹی آئی مذاکرات کے لیے تیار

17 ستمبر 2014
پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر عارف علوی، جہانگیر ترین، شفقت محمود اور اسد عمر— آئی این پی فوٹو
پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر عارف علوی، جہانگیر ترین، شفقت محمود اور اسد عمر— آئی این پی فوٹو

اسلام آباد : اگرچہ عمران خان اپنا احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں تاہم پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دیگر رہنماءتاحال حکومت کے ساتھ پارٹی کے انتخابی دھاندلی کے موقف پر بامعنی مذاکرات کی دوبارہ بحالی کے لیے پرامید ہیں۔

منگل کو صحافیوں کو بریفننگ دیتے ہوئے پی ٹی آئی رہنماﺅں نے کہا کہ وہ موجودہ سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے دیانتداری سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں مگر حکومت نے اعتماد سازی کے اقدامات کرنے کی بجائے ہمارے ورکرز کے خلاف کریک ڈاﺅن شروع کردیا۔

آخری بار دونوں اطراف کی ملاقات آٹھ ستمبر کو ہوئی تھی جبکہ پارٹی ورکرز کے خلاف پولیس ایکشن کے بعد پی ٹی آئی نے بات چیت ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین، شفقت محمود، ڈاکٹر عارف علوی اور اسد عمر نے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو بریفننگز دیں اور پارٹی کے مستقبل کے اقدامات اور دونوں اطراف کی بات چیت کے حوالے سے آگاہ کیا۔

یہ بریفننگ جہانگرترین کی رہائشگاہ پر دی گئی اور پی ٹی آئی سیکرٹری جنرل نے کہا"ہم نے بات چیت کے لیے اپنے دروازے کبھی بند نہیں کیے مگر حکومت نے مذاکرات کے لیے ماحول بہتر بنانے کی بجائے پی ٹی آئی ورکرز کے خلاف کریک ڈاﺅن شروع کردیا"۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے حکومت نے انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کے لیے آرڈنینس کے ذریعے ایک خصوصی عدالتی کمیشن کے قیام پر اتفاق کیا تھا، مگر اس نے "دھاندلی پر ہماری بیان کردہ تعریف" کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ حکومت نے تحقیقات کے لیے نئے حلقے کھولنے سے بھی انکار کردیا تھا، اور اس کا اصرار تھا کہ مجوزہ کمیشن کے ذریعے تحقیقات کے مرکز کو پی ٹی آئی کے الزامات یعنی سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی کے انتخابی دھاندلی میں مبینہ کردار تک محدود کردیا جائے۔

جہانگیر ترین کے کہا کہ پی ٹی آئی نے مخصوص تعداد میں حلقوں میں آڈٹ پر زور دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا"دونوں اطراف نے ابھی وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے پر بات چیت کرنا ہے کیونکہ ابھی تک ہم کمیشن کی تشکیل اور اس کی شرائط پر مذاکرات کرتے رہے ہیں"۔

ڈاکٹر عارف علوی نے اس موقع پر بتایا"ہم یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ حکومت کیوں تیس حلقوں کو کھولنے کے لیے تیار نہی، جو کہ اس بات کے تعین کے لیے بہترین مثال ثابت ہوں گے گزشتہ سال ہونے والے عام انتخابات آزاد و شفاف تھے یا نہیں"۔

شفاقت محمود نے کہا کہ گزشتہ ہفتے کے آخر میں ریاستی بربریت اس وقت سامنے آگئی جب پی ٹی آئی کے ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت بات چیت میں دلچسپی نہیں رکھتی" اس وقت بھی 410 ورکرز اڈیالہ جیل میں ہیں، جبکہ 230 کو اٹک اور جہلم کی جیلوں میں منتقل کردیا گیا ہے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ گرفتار ہونے والے پارٹی ورکرز کو ان کے موبائل فونز، دستی گھڑیوں اور بٹووں سے بھی محروم کردیا گیا ہے۔

اس سوال پر کہ اگر حکومت اپنے موقف پر برقرار رہی تو پھر کیا حکمت عملی اپنائی جائے گی؟ جس پر پی ٹی آئی رہنماﺅں نے کہا کہ دھرنے کو جاری رکھا جائے گا۔

جہانگیر ترین نے کہا" یہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ہے کہ لوگ اسٹیٹس کو کی حامی طاقتوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، واپسی کا اب سوال ہی پیدا نہیں ہوتا"۔

جاوید ہاشمی کے الزامات پر کیے گئے سوالات پر ان رہنماﺅں نے کہا کہ پارٹی نے جاوید ہاشمی کو پی ٹی آئی کے صدر کے عہدے سے ہٹانے کے لیے قرارداد تیار کرلی ہے۔

متعدد کوششوں کے باوجود حکومتی مذاکرات کاروں سے اس بارے میں رابطہ نہیں ہوسکا۔

تبصرے (0) بند ہیں