اسلام آباد : وزارت عظمیٰ کے دوسرے سال میں وزیراعظم نواز شریف کو انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے نئے سربراہ کے انتکاب میں مشکل کا سامنا ہے، یہ فیصلہ سویلین اور فوجی قیادت کے درمیان کشیدہ تعلقات پر بہت زیادہ اثرات مرتب کرسکتا ہے۔

ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل ظہیر الاسلام جنھیں مارچ 2012 میں آئی ایس آئی کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا، یکم اکتوبر کو ریٹائر ہورہے ہیں۔

متعدد وجوہات جیسے دھرنوں اور سیلاب سیاستدانوں، صحافیوں اور تجزیہ کاروں کو جنرل ظہیرالاسلام کے جانشین کے بارے میں قیاس آرائیوں پر مجبور کردیا ہے۔

موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے میں توسیع کا امکان بہت کم ہے کیونکہ حکومت اس خیال کی حامی نظر نہیں آتی، جبکہ فوج کی جانب سے بھی ایسا مطالبہ کیے جانے کا موڈ نہیں ہے۔

اس لیے حیرت کی بات نہیں کہ ڈی جی آئی ایس آئی کے لیے مختلف ناموں پر قیاس آرائیاں زور پکڑ رہی ہیں۔

آئی ایس آئی کے کنٹرول کے ساتھ اس کے سربراہ ملک میں انٹیلی جنس معلومات کو جمع کرنے کے ساتھ پاکستانی سیاست میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں، ماضی میں بھی یہ عہدہ نمایاں توجہ کا باعث بنا رہا ہے۔

اور موجودہ صورتحال میں جب آئی ایس آئی پر دھرنوں کی شدت بڑھانے کے کردار کے الزامات لگ رہے ہیں اور فوجی و سیاسی قیادت کے تعلقات کو دیکھتے ہوئے جنرل ظہیرالاسلام کے جانشین میں عوامی دلچسپی بڑھا دی ہے۔

تو کون ان کی جگہ سنبھال سکتا ہے؟ اصول و ضوابط کے مطابق آرمی چیف مختلف لیفٹننٹ جنرلز کے نام وزیراعظم کو بھجواتے ہیں جو حتمی انتخاب کرتے ہیں، تاہم ماضی میں یعنی 2012 میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ اشفاق پرویز کیانی کی جانب سے صرف ایک ہی نام لیفٹننٹ جنرل ظہیر الاسلام کا پیپلزپارٹی کی حکومت کے وزیراعظم کو بھیجا گیا تھا ، اور حکومت کو کسی انتخاب کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔

ایک ریٹائرڈ جنرل نے ڈان کو بتایا کہ اس وقت حکومت میمو گیٹ تنازعے میں پھنسی ہوئی تھی،اس لیے جب اشفاق پرویز کیانی نے ایک ہی نام بھجوایا تو اس نے بغیر کسی ہنگامے کے اس نام کی منظوری دے دی۔

اور اس بار بھی یہ اہم تعیناتی اس وقت ہو رہی ہے جب ایک اور سیاسی بحران موجود ہے تاہم آرمی چیف جنرل راحیل شریف جنرل ریٹائرڈ کیانی نہیں اور نہ ہی وزیراعظم نواز شریف پیپلزپارٹی کی حکومت کی طرح اتنی آسانی سے ایک نام کی منظوری دیں گے۔

تاہم آئی ایس آئی کے نئے سربراہ کی شناخت سامنے آنے سے پہلے فوج سے متعلق ایک اور اہم پیشرفت سامنے آئی ہے، پانچ افسران کو میجر جنرلز سے اگلے عہدوں پر ترقی دی جائے گی تاکہ یکم اکتوبر کو پانچ لیفٹننٹ جنرلز کی ریٹائرمنٹ پر پیدا ہونے والا خلا بھرا جاسکے۔

جنرل ظہیر الاسلام کے ساتھ جو جنرل یکم اکتوبر کو ریٹائر ہورہے ہیں ان میں کور کمانڈر منگلا لیفٹننٹ جنرل طارق خان، کور کمانڈر گوجرانوالہ لیفٹننٹ جنرل سلیم نواز، کور کمانڈر پشاور لیفٹننٹ جنرل خالد ربانی اور کور کمانڈر کراچی لیفٹننٹ جنرل سجاد غنی شامل ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ آرمی چیف وزیراعظم کو فہرست بھیجنے سے قبل فوج کے اندر ترقیوں کے ذریعے جگہیں بھریں گے اور یہ نئی ترقی پانے والے افراد بھی آئی ایس آئی کے سربراہ کے عہدے کے لیے قطار میں کھڑے ہوں گے۔

مگر جنرل راحیل شریف ناموں کی فہرست وزیراعظم کو بھیجنے سے قبل کن چیزوں کو مدنظر رکھیں گے؟ فوجی امور پر نظر رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ آرمی چیف مختلف معاملات جیسے ریٹائرمنٹ کی تاریخ، انٹیلی جنس آپریشنز کا تجربہ اور سیاسی جھکاﺅ کو دیکھیں گے۔

جنرل راحیل شریف جو اگلے دو سال تک آرمی چیف رہیں گے، کی خواہش ہوگی کہ آئی ایس آئی سربراہ بھی ان کی مدت تک برقرار رہے، اگر ان کی سوچ یہی ہوئی تو آٹھ لیفٹننٹ جنرلز اس دوڑ میں شامل نہیں رہیں گے۔

تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ آرمی چیف جنھیں زیادہ انٹیلی جنس تجربہ نہیں، ایسے آئی ایس آئی سربراہ کے خواہش مند ہوسکتے ہیں جو ایجنسی کے نظام سے بخوبی واقف ہو اور انٹیلی جنس معاملات میں ان کی بہتر معاونت کرسکے۔

اگرچہ ڈی جی آئی ایس آئی وزیراعظم کے زیرتحت کام کرتا ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ وہ براہ راست انہیں رپورٹ کرتا ہے، تاہم روایتی طور پر آرمی چیف ہی اسپائی ماسٹر کے باس مانے جاتے ہیں۔

ایک دفاعی تجزیہ کار کے الفاظ میں" جنرل راحیل شریف ایک وفادار آئی ایس آئی کے دفتر میں چاہیں گے، جبکہ وزیراعظم نواز شریف کی بھی یہی خواہش ہوگی"۔

تجزیہ کار کا اندازہ یہ ہے کہ جنرل راحیل شریف سیاسی طور پر غیرجانبدار افسر کو ترجیح دیں گے، حکومت کی جانب سے کوئی اشارہ یا تجویز اس افسر کے لیے مددگار ثابت نہیں ہوسکے گی بلکہ اس کے اسپائی ماسٹر بننے کے امکانات ختم ہوجائیں گے۔

درحقیقت اگر آرمی چیف حکومت کی جانب سے دیئے گئے نام کو سائیڈلائن کرنا چاہیں گے تو وہ اسے کسی جگہ کا کورکمانڈر بنادیں گے جو آئی ایس آئی سربراہ سے نامزد کیے جائیں گے۔

تاہم اس وقت اس بارے میں کوئی اطلاعات سامنے نہیں آئی کہ وزیراعظم کی اس حوالے سے کوئی ترجیح ہے، ان معلومات کی غیرحاضری پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ جنرل راحیل شریف ہی کسی ایسے افسر کو تلاش کرین گے جس پر وہ اعتماد کرسکیں اور وہ ایسا بھی ہوسکتا ہے جسے وہ ذاتی طور پر ترقی دیں۔

اس وقت وہ ایک بیچ کو پہلے ہی ترقی دے چکے ہیں جبکہ یکم اکتوبر کو دوسرے گروپ کو اگلے عہدوں پر ترقی دی جائے گی، جیسا اوپر بتایا جاچکا ہے۔

تجزیہ کاروں کو لگتا ہے کہ ان گروپس میں سے ہی وہ کسی کو اس اہم عہدے کے لیے چن سکتے ہیں، یہ بات قابل ذکر ہے کہ سابق آئی ایس آئی سربراہ جنرل ریٹائرڈ شجاع پاشا کو آئی ایس آئی کی ذمہ داری میجر جنرل سے لیفٹننٹ جنرل بنائے جانے کے فوری بعد دے دی گئی تھی۔

مزید یہ کہ جنرل راحیل شریف پہلے ہی کچھ اہم عہدے نئے آنے والے جنرلز کو دے چکے ہیں، جیسے چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹننٹ جنرل اشفاق ندیم اس کی ایک مثال ہیں۔

فوجی امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ این ڈی یو کے صدر لیفٹننٹ جنرل جاوید اقبال رمدے اور ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل رضوان اختر اہم ثابت ہوسکتے ہیں۔

میجرجنرل نوید مختار جنھیں یکم اکتوبر کو ترقی دی جاسکتی ہے، بھی انٹیلی جنس تجربے کی بناءپر زیرغور آسکتے ہیں، جبکہ دیگر زیرغور امیدواروں میں لیفٹننٹ جنر عبید اللہ خٹک، لیفٹننٹ جنرل اکرام الحق(جنھیں آرمی چیف نے خود ترقی دی تھی) اور لیفٹننٹ جنرل ضمیرالحسن جنھیں اشفاق پرویز کیانی نے ترقی دی شامل ہیں۔

تاہم اس حوالے سے بھی یقین سے کچھ کہنا ممکن نہیں، حتمی فیصلہ سب سے اوپر بیٹھے شخص نے ہی کرنا ہے۔

ان چند ایک میں سے یا حتمی انتخاب کون بنتا ہے یہ ابھی دیکھنا ہوگا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Ahmad Sep 20, 2014 08:13pm
a total verbosity and waste of time. what has happened to analysis of experts that too in dawn. I have never read a useless analysis like that. poor.