مڑی تڑی باتیں اور مقاصد

22 ستمبر 2014
چیزوں کو اپنی مرضی کے مطابق توڑ مروڑ کر پیش کرنے، اور غیر آئینی اقدامات سے پاکستان کے مسائل میں صرف اضافہ ہی ہوگا۔
چیزوں کو اپنی مرضی کے مطابق توڑ مروڑ کر پیش کرنے، اور غیر آئینی اقدامات سے پاکستان کے مسائل میں صرف اضافہ ہی ہوگا۔

اسلام آباد میں پچھلے کچھ ہفتوں سے جاری دھرنوں کے نتائج کیا ہوں گے، اس بارے میں تمام فکرمند حلقوں کی جانب سے تقریباً دو ہی ملے جلے مؤقف ہیں۔

ایک تو یہ، کہ پورے سسٹم میں تبیدلی اور اصلاحات آئیں گی۔ اس کے دو رخ ہیں۔ پہلا رخ پاکستان کی تنگ نظر مذہبیت سے ہے، جو آزادی حاصل کرنے کے ساتھ شروع ہوئی، اور اپنی انتہا کو جنرل ضیاء کے دور میں پہنچی۔ اس دور میں بڑے پیمانے پر مختلف سماجی گروہوں کو ہم آہنگی کے نام پر آپس میں ملانے کی کوششیں کی گئیں۔ فرقہ واریت اور انتہاپسندی کے بیج بھی اسی دور میں بوئے گئے تھے، اور کئی قوانین پاس کیے گئے جنہوں نے عورتوں اور مختلف مذہبی پس منظر رکھنے والے لوگوں کو دیوار سے لگایا۔

میڈیا اور نصاب کو محتاط طریقے سے استعمال کر کے لسانی، نسلی، مذہبی، اور جنسی تفریق کو زبردستی ختم کر کے ایک مصنوعی ہم آہنگ سوسائٹی بنانے کی کوشش کی گئی۔ اور اس کا واضح اثر یہ ہوا کہ "دوسروں" کو دشمن سمجھا جانے لگا۔

دوسرا رخ پالیسی سازی اور ریاستی امور سے متعلق ہے۔ ریاست نے ملک کو لاحق تصوراتی یا حقیقی خیالات کی بناء پر اقدامات کرنے شروع کیے۔ ملک میں موجود بے پناہ قدرتی وسائل کے استعمال، اور وسیع پیمانے پر پیداوار بڑھانے کے بجائے ملٹری حکمران نے ایسی معیشت تشکیل دی، جس میں جنگ کی قابلیت بڑھانے، گرانٹ، قرضوں، اور امداد کے ذریعے معیشت چلانے کے لیے فارن پالیسی کو اپنے حساب سے تبدیل کیا گیا۔

اس پالیسی کے مقاصد کو قومی مفادات کا نام دیا گیا۔ صرف کچھ لوگوں اور اداروں کو یہ حق حاصل تھا، کہ وہ قومی مفاد کی تعریف بیان کرسکیں۔

دوسری تمام سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی، اور فورمز کو غدار اور بیرونی ایجنٹ قرار دیا گیا، جس کی وجہ سے پاکستان عوام اور اشرافیہ کے درمیان تقسیم ہوا۔ اسی وجہ سے فاٹا، اور ملک کے دیگر حصوں میں موجود دوسرے لسانی گروہوں کو دیوار سے لگائے گئے۔ اور اس طرح پاکستان اپنے قیام کے اصل مقصد یعنی فلاحی ریاست کے بجائے ایک سیکیورٹی اسٹیٹ بن گیا۔

اب آتے ہیں دوسرے مؤقف کی جانب، جو سیاسی اصلاحات سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے بھی دو رخ ہیں۔ پہلا تو انتخابی قوانین میں اصلاحات سے متعلق ہے، تاکہ جمہوری نظام میں عوام کی شرکت اور نمائندگی کو شفاف بنایا جاسکے، جو کہ ایک جمہوری سیاسی نظام کے لیے ضروری ہے۔

دوسرا رخ پاکستانی ریاست کی وفاقی طرز کو سمجھنا ہے۔ پاکستان میں بہت سارے لسانی، نسلی، اور ثقافتی گروپ بستے ہیں۔ اگر فاٹا، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کو شامل کیے بغیر انتخابی اصلاحات کی گئیں، تو ریاست اور شہریوں کے درمیان موجود سوشل کانٹریکٹ یا سماجی معاہدہ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔

دھرنوں کے لیڈروں کا یہ دعویٰ ہے، کہ 2013 کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کو جتانے کے لیے دھاندلی کی گئی تھی، اس لیے وزیر اعظم نواز شریف کو استعفیٰ دے کر، اسمبلیاں تحلیل کر کے تازہ انتخابات کرانے چاہیئں۔

یہ بات کتنی دلچسپ ہے، کہ کیسے سسٹم کی تبدیلی، اسٹرکچر اور نظام میں اصلاحات کی باتوں کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال کر عوام کے ذہنوں پر قبضہ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ وزیراعظم کے استعفے، اسمبلیوں کی تحلیل، اور تازہ انتخابات سے سسٹم میں تبدیلی کیسے آئے گی، اس بات پر کم ہی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

دھرنوں کے لیڈر کس طرح خارجہ و معاشی پالیسیوں، اور تنگ نظر مائنڈسیٹ میں تبدیلی لائیں گے؟ اگر تازہ انتخابات کے بعد وہ اقتدار میں آئیں، تو کس طرح وہ فاٹا میں اور ریاست کی سیکیورٹی پالیسی میں تبدیلی لائیں گے؟ دیوار سے لگائے گئے بلوچوں، ایف سی آر کے کالے قانون کے تحت رہ رہے فاٹا کے لوگوں، پختوںوں اور سندھیوں کو سوشل کانٹریکٹ میں شامل کر کے انہیں قومی دھارے میں لانے کے لیے ان کے پاس کون سا جادوئی نسخہ موجود ہے؟ میڈیا اور نصاب کو "سماجی فلاحی ریاست" کی طرف راغب کرنے کے لیے وہ کیا کریں گے اور کیسے کریں گے؟

وہ یہ سب درست کرنے کے لیے اوپر سے نیچے کے پلان پر چل رہے ہیں، جبکہ وسائل کی تقسیم، دیوار سے لگایا جانا، انصاف تک رسائی، اور گورننس اور اداروں کی مضبوطی، یہ وہ کام ہیں جو اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر، دوںوں طرف سے کام چاہتے ہیں۔

سماجی خدمات کی بہتر فراہمی، سوشل سیکیورٹی کا نفاذ، اور ریاست کا رخ سرحدوں کی حفاظت سے ہٹا کر عوامی حفاظت کی طرف کرنا، یہ ایسے کام ہیں جن کے لیے سیاستدانوں کے پاس شفاف مقاصد اور عزم و ارادہ ہونا ضروری ہے۔ لیکن سماجی تبدیلی صرف اور صرف سیاسی کارکنوں، تعلیمی حلقوں، سول سوسائیٹی اور میڈیا کے نمائندوں کی جانب سے طویل جدوجہد کے بعد ہی آسکتی ہے، اور اس کے لیے بھی ان لوگوں کے پاس سوچ کی وسعت اور گہرائی ہونا ضروری ہے، جبکہ یہ کام صرف نیچے سے اوپر کے پلان، اور لوگوں کے رویوں میں تبدیلی لا کر ہی ہوسکتا ہے۔

چیزوں کو اپنی مرضی کے مطابق توڑ مروڑ کر پیش کرنے، اور غیر آئینی اقدامات کی طرف رجحان رکھنے سے پاکستان کے مسائل میں صرف اضافہ ہی ہوگا۔ طاقت حاصل کرنے کے شارٹ کٹ سے یہ ہوسکتا ہے کہ عوام میں مزید سیاسی شعور آنے کے بجائے وہ سیاست سے بالکل ہی بیزار ہوجائیں۔ سوشل میڈیا پر اور قومی میڈیا پر بڑھتے ہوئے بے تکے رویوں کو دیکھ کر ہم باآسانی یہ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ تھوڑے سے مفاد کے لیے سیاسی حریفوں کے کردار پر کیچڑ اچھالنے سے صرف اور صرف جانبداریوں میں انتہا ہی پیدا ہوگی۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری سیاسی تجزیہ نگار ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر @khadimhussain4 کے نام سے لکھتے ہیں۔

khadim [email protected]

یہ مضمون ڈان اخبار میں 19 ستمبر 2014 کو شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں