ڈی چوک دھرنے، گرفتاری کے ڈر سے ورکرز کی زندگیوں کو خطرہ

22 ستمبر 2014
پی اے ٹی کے میڈیکل کیمپ میں محمد علی کا علاج ہورہا ہے— ڈان فوٹو
پی اے ٹی کے میڈیکل کیمپ میں محمد علی کا علاج ہورہا ہے— ڈان فوٹو

اسلام آباد : شارع دستور پر ایک لڑکھڑاتے خیمے میں سجاد حسین اس وقت فکرمند نظر آئے جب مردوں کا ایک گروپ ایک بے ہوش جسم ان کی جانب لے کر آرہا تھا۔

یہ بے ہوش شخص محمد علی ہے جو کچھ منٹ پہلے ہی اچانک میدان پر گر پڑا تھا، اس کی پیشانی پر خراشیں نظر آرہی تھین جبکہ چہرے پر بھی خونی رگڑ کے نشانات تھے۔

لوگ محمد علی کو اٹھا کر میڈیکل ٹینٹ میں لے کر آئے اور ایک عارضی اسٹریچر پر لٹا دیا۔

سجاد حسین جو ایک مقامی ہسپتال میں آپریشن تھیٹر کے معاون کی تربیت لے چکے ہیں، نے چھ کے قریب ریزر بلیڈ لیے اور محمد علی کے سر کے بال صاف کردیئے جس سے اس کے زخم نظر آنے لگے۔

صرف کچھ سوتی پٹیوں، جراثیم کش سیال اور سوئیوں سے لیس سجاد حسین نے محمد علی کے زخموں کو سینے کے لیے اپنی حد تک ہر ممکن کوشش کی۔

اس وقت جب سجاد محمدعلی کی تیمارداری کررہے تھے، اس کے بھائی حنیف اسے چہرے پر تکلیف سجائے دیکھ رہا تھا، جب اسے کہا گیا کہ محمد علی کو ہسپتال لے جائے تو اس نے انکار کردیا"ہسپتال جانے کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے، پولیس وہاں ہمیں گرفتار کرنے کے لیے انتطار کررہی ہے، اس نے گزشتہ دنوں ہمارے متعدد دوستوں کو ہسپتال سے اٹھایا ہے"۔

حنیف نے کہا کہ وہ اپنے بھائی کو پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے ہر ممکن مدد کرے گا۔

وہ مڑا اور لنگڑاتا ہوا منہاج فاﺅنڈیشن کے زیرتحت قائم میڈیکل ٹینٹ سے باہر نکل گیا، یہ ٹینٹ ڈی چوک پر موجود مظاہرین کی طبی امداد کے لیے لگایا گیا ہے اور سجاد کئی روز سے یہاں رضاکارانہ طور پر کام کررہا ہے۔

وہ مسلسل مریضوں کے علاج میں مصروف رہتا ہے اور گلے کے انفیکشنز سے لے کر زخموں کو ابتدائی طبی امداد سمیت ہر بیماری کا علاج کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس سابق بوائے اسکاﺅٹ نے ڈان کو بتایا"یہاں روزانہ آٹھ سے دس مریض ایسے آتے ہیں جنھیں ابتدائی طبی امداد، زخموں پر ٹانکے اور کچھ کیسز میں تو سنجیدہ طبی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے"۔

شارع دستور پر کام کرنے والے طبی معاون اور ڈاکٹروں کو شیشوں کے ٹکڑوں سے آنے والے زخم، ٹوٹی ہوئی ہڈیوں اور خیموں کے بھاری پول بے کس متاثرین پر گر جانے اور مظاہرین کے درمیان آپس میں لڑائی سے زخموں پر فکرمندی ہے۔

سجاد کی سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ اس کے پاس روز آنے والے مریضوں کو مناسب طبی امداد کی ضرورت ہے مگر وہ ہسپتال جانے کا خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہیں۔

راجا شبیر ان افراد میں سے ایک ہے جو روز سجاد کے پاس آتا ہے۔

55 سالہ شبیر کا بایاں ہاتھ کچھ ہفتے قبل پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم میں ٹوٹ گیا تھا جس کے بعد سے اس میں میٹل راڈ لگی ہوئی ہے۔

شبیر کا کہنا ہے کہ اسے دو بار گولیوں کا نشانہ بنایا گیا ایک بار اس کے بازو اور دوسری بار پیٹ پر، اس نے قمیض اٹھا کر اپنے زخم دکھائے اور فخریہ انداز میں کہا کہ گولی تاحال اس کے جسم کے اندر موجود ہے۔

اس کا کہنا تھا"ڈاکٹروں نے مجھے کہا تھا کہ اس گولی کو باہر نکالے جانے کی ضرورت ہے مگر میرے لیے ہسپتال جانا محفوظ نہیں، پولیس ہسپتالوں میں پاکستان عوامی تھریک کے ورکرز کی منتظر ہے"۔

محمد خلیل کو بھی پولیس کے ساتھ تصادم کے دوران کئی زخم آئے تھے اور اس کا دعویٰ ہے کہ اسے خودکار اسلحے سے پیٹ میں گولی ماری گئی تھی، اس کے پاس ایکس ریز سسے پتا چلتا ہے کہ یہ گولی ریڑھ کی ہڈی کے قریب پہنچ گئی تھی۔

اس کا کہنا ہے"ڈاکٹروں نے مجھے کہا تھا کہ گولی کو نکالنا خطرناک ہوسکتاہ ے، اگرچہ انہوں یہ بھی کہا کہ اس حوالے سے مزید اسکینز کی ضرورت ہے مگر ان کا فیصلہ یہی تھا کہ کسی بھی قسم کی سرجری سے میں زندگی بھر کے لیے مفلوج ہوسکتا ہوں"۔

سجاد نے ڈان کو اپنے ایک اور مریض کے بارے میں بتایا جس کا کندھا گن شاٹ سے متاثر ہوا، اور وہ گولی تاحال اس کے زخمی کندھے میں موجود ہے اور زخم کا فوری علاج نہ ہوا تو وہ بہت بری طرح انفیکشن کا شکار ہوسکتا ہے، جبکہ اس فرد کے ہاتھ سے محروم ہونے سمیت موت تک کا خطرہ ہے۔

سجاد نے بتایا"میرا ایک اور مریض سینے پر گولی کا نشانہ بنا، اس کے زخموں میں بھی انفکیشن کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں"۔

اس نے مزید بتایا کہ اس کے بیشتر مریض دن میں دو بار اس کے پاس آتے ہیں۔

دھرنوں کے مقام پر اپنا طبی کیمپ چلانے والے ایک ہومیوپیتھک ڈاکٹر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ نے بتایا کہ ڈی چوک کا گندگی سے بھرا ماحول بھی بیشتر مظاہرین میں طبی مسائل کا سبب بن رہا ہے" یہاں پینے کے پانی کی کمی، کچرے اور انسانی غلاظت کھلے آسمان تلے پڑی رہتی ہے، جبکہ میڈیکل فضلے جیسے سرنجوں اور استعمال شدہ پٹیوں کو بھی مناسب طریقے سے ٹھکانے نہیں لگایا جاتا"۔

اس کے علاوہ علاقہ بدبو سے بھرا ہوا ہے کیونکہ صفائی کے عملے نے پاکستان سیکرٹریٹ اور ڈی چوک کے درمیان کام کرنے سے انکار کردیا ہے جو کہ طبی مسائل کا ایک بڑا سبب ہے، اگر صفائی کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو مظاہرین میں وبائی امراض پھوٹ پڑنے کا خدشہ ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

راضیہ سید Sep 22, 2014 03:35pm
کیا یہی حکومت ہے کہ لوگ اس کے ڈر سے علاج معالجے سے بھی گئے اور پولیس لوگوں کو تحفظ دینے کی بجائے ظلم و زیادتی کا ادارہ بن کر رہ گئی ہے ، شیخ سعدی کی ایک حکایت ہے کہ ایک ملک کا بادشاہ بہت ظالم تھا اور لوگ اس سے تنگ تھے ، جب وہ سو جاتا تھا تو لوگ سکون کا سانس لیتے اور اپنے کاروبار زندگی سرانجام دیتے تھے ، جب عوام سے پوچھا گیا کہ آپ کیوں بادشاہ کے سونے پر خدا کا شکرادا کرتے ہو تو انھوں نے کہا کہ اس کے جاگنے سے اس کا سونا بہتر ہے کیوں کہ وہ سونے کے دوران ظلم نہیں کر سکتا ہے ، تو یہی صورتحال یہاںپر بھی ہے کہ دھرنے والے افراد یہاں پر اپنے حقوق کے حصول کے لئے آئے ہیں کم ازکم انھیں صحت کی اور صفائی کی سہولیات فراہم کرنا تو حکومت کی ذمہ داری ہے ، ہم کتنا بھی ان دونوں قائدین سےاختلاف کریں لیکن یہ بات ہے کہ ان کے مطالبات بہتر تھے اور اچھے تھے لیکن انکا احتجاج کا طریقہ کار غلط ہے تاہم اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسانیت کی توھین کی جائے اور انھیں طبی امداد بھی نہ دی جائے اور اس قدر خوف و ہراس پھیلا دیا جائے کہ لوگ ہسپتال بھی گرفتاری کے ڈر کے مارے نہ جائیں ۔