الیکشن کمیشن نے انتخابی خامیوں کا ذمہ دار آر اوز کو قرار دے دیا

23 ستمبر 2014
مئی 2013 کے عام انتخابات میں ایک ووٹر انگوٹھے کا نشان لگارہا ہے— فائل فوٹو
مئی 2013 کے عام انتخابات میں ایک ووٹر انگوٹھے کا نشان لگارہا ہے— فائل فوٹو

اسلام آباد : الیکشن کمیشن آف پاکستان(ای سی پی) نے تیکنیکی طور پر ریٹرننگ آفیسرز(آر اوز) کو گزشتہ سال کے عام انتخابات میں متدد حلقوں میں سامنے آنے والی بے قاعدگیوں کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔

ای سی پی کی جانب سے انتخابات کے حوالے سے جاری ایک رپورٹ کے مطابق آر اوز کو ماتحت عدلیہ سے لیا تھا جنھوں نے عام انتخابات سے چند روز پولنگ اسکیم میں تبدیلیاں کردیں جس سے پولنگ عملے، ووٹرز اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو الجھن کا سامنا کرنا پڑا۔

اس کے علاوہ آر اوز نے آخری وقت میں تربیت یافتہ عملے کو غیرتجربہ اہلکاروں سے تبدیل کردیا۔

آر اوز قانونی طور پر پولنگ اسٹیشنز کو منتخب کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں مگر رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انہوں نے یہ ٹاسک خود مکمل نہیں کیا۔

ضلعی کمیٹیاں جو ای سی پی، سول انتظامیہ اور محکمہ تعلیم کے نمائندوں پر مشتمل تھی نے پولنگ اسٹیشنز کو تلاش، تصدیق اور منتخب کیا۔

آر اوز ضلعی انتظامیہ سے رابطے میں تھے جو کہ ان آفیسرز تک انتخابی مواد پہنچانے کے لیے ٹرانسپورٹ کے انتظامات کرنے کے ذمہ دار تھے، تاہم رپورٹ کے مطابق ٹرانسپورٹ کی سہولت ناکافی ثابت ہوئی، پولنگ عملے تک انتخابی میٹریل پہنچانے کے لیے جتنی بسیں کرائے پر حاصل کی گئیں ان کی تعداد اسٹیشنز کے مقابلے میں کم تھی جس کی وجہ سے ڈیلیوری مقررہ شیڈول کے مطابق نہیں ہوسکی۔

اس کے علاوہ پولنگ کے اختتام پر بھی مسائل کا سامنا ہوا اور پولنگ عملے کو بسوں کا انتظار کرنا پڑا، جبکہ بسوں میں عملے اور انتخابی میٹریل کے لیے جگہ بھی نہ ہونے کے برابر تھی۔

پریزائیڈنگ افسران انتخابی میٹریل کی کمی سے ناواقف تھے کیونکہ انہوں نے انوائسز کے مطابق میٹریل کی تعداد کو چیک نہیں کیا اور انہیں اس مسئلے کا علم پولنگ کے دن ہوا۔

بیشتر پولنگ عملہ مقناطیسی سیاہی اور اس کے مقصد سے ناواقف تھا اور اسی وجہ سے مقناطیسی سیاہی جگہ عام سیاہی کے پیڈ استعمال کیے۔

اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے ای سی پی نے کہا ہے کہ انتخابی میٹریل جیسے ووٹنگ اسکرینز، بیلٹ پیپرز، قینچیاں اور قلم وغیرہ کا معیار ناقص تھا، تمام پونگ بوتھ پر معمول کے مطابق انتخابی بلاک کوڈ سیریل نمبر کے ساتھ تحریر نہیں کیے گئے تھے۔

اس چیز سے ووٹرز کے اندر کنفیوژن پیدا ہوا جو اپنے بوتھس کو تلاش کرتے رہے۔

بیشتر پولنگ اسٹیشنز بہت گنجان تھے اور ایک چھوٹے سے کمرے میں دو سے تین بوتھس لگائے گئے، جبکہ بہت زیادہ تعداد میں ووٹرز کی آمد سے پولنگ عملے کی کارکردگی متاثر ہوئی، کیونکہ کم جگہ، انتہائی گرم موسم اور لوڈشیڈنگ وغیرہ نے مسئلے کو مزید بڑھا دیا تھا۔

بیلٹ پیپرز کو بند کرنے کے لیے لفافے کم اور چھوٹے تھے، اس کے ساتھ ساتھ سیل کیے جانے والے بیگز کی تعداد بھی ناکافی ثابت ہوئی۔

رپورٹ کے مطابق بیشتر پریزائیڈنگ افسران نے بیگز اور دیگر میٹریل کو مناسب طریقے سے سیل بند نہیں کیا، ضلعی کمشنرز کے دفاتر میں انتخابی میٹریل کو رکھنے کے لیے جگہ بہت کم تھی۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آر اوز نے انتخابی میٹریل کی واپسی کی ذمہ داری نہیں لی، جبکہ ڈی آر اوز اور آر اوز نے گمشدہ میٹریل کی ذمہ داری لینے سے بھی انکار کردیا۔

غیر تربیت یافتہ عملہ

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غیرتربیت یافتہ عملے کو فہرستوں کی تیاری پر لگادیا گیا، فارم XIV میں سامنے آنے والی غلطیاں ان کا ہی کارنامہ ہے، آر اوز نے مینوئل سسٹم اور رزلت منیجمنٹ سسٹم کو سیکنڈری میکنزم کے طور پر استعمال کیا۔

ای سی پی کا کہنا ہے کہ آر ایم ایس کو متعارف کرانا واقعی بہت اچھا خیال تھا مگر اس میں متعدد خامیاں سامنے آئیں، نظام میں خامیوں کے باعث سندھ سے انتخابات کی رات کوئی نتیجہ موصول نہیں ہوسکا۔

آر اوز کے پاس امیدواروں کے کاغذات نامزدگی قبول یا مسترد کرنے کا مکمل اختیار تھا مگر ای سی پی نے اس کے طریقہ کار کے حوالے سے ہدایات ہی جاری نہیں کیں، اور اسے آر اوز کی مرضی پر چھوڑ دیا گیا۔

آئین کی شق 62 اور 63 اس عمل کے دوران چھائی رہیں اور ان شقوں کی درخواستیں ایک سے دوسرے آر او تک منتقل ہوتی رہی جس سے سکروٹنی کا عمل متاثر ہوا۔

رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ متعدد امیدواروں کو مناسب تصدیق کے بغیر ہی کلئیر کردیا گیا کیونکہ ای سی پی ہیڈکوارٹر مین قائم کیے گئے ایک سکروٹنی سیل نے موثر طریقے سے کام نہیں کیا۔

متعدد آر اوز کو نیب، ایس بی پی اور ایف بی آر کی جانب سے امیدواروں اک ڈیٹا موصول نہیں ہوا یا انہیں یہ معلومات اس وقت دی گئیں جب سکروٹنی کا عمل مکمل ہوچکا تھا۔

ڈی آر اوز اور آر اوز کے لیے تیار کی گئی ہینڈ بکس پولنگ کے روز کے حوالے سے ضروری معلومات اور ہدایات پر مشتمل تھیں مگر یہ کتابیں بہت تاخیر سے فراہم کی گئیں، یہاں تک کہ آر اوز کو اپنی تقرری کے نوٹیفکیشنز ہی انتخابات سے پندرہ روز قبل موصول ہوئے اور پولنگ اسکیم کو حتمی شکل دینے کے لیے ڈیڈلائن بہت مختصر تھی۔

رپورٹ کے مطابق آر اوز کے پاس پولنگ اسٹیشنز کی چیکنگ کے لیے مناسب ٹرانسپورٹ موجود نہیں تھی، کچھ محکموں کے نامزد کردہ پولنگ اہلکار آخری وقت میں دستیاب نہیں ہوسکے۔

ای سی پی کا کہنا تھا کہ کچھ بااثر امیدواروں نے پولنگ اسٹیشنز کو اپنے مخالف ووٹرز کے علاقوں سے دور دراز منتقل کرادیا تاکہ وہ اپنا ووٹ کاسٹ نہ کرسکیں۔

تبصرے (0) بند ہیں