روزگار کے لیے لوگ اپنے گھر چھوڑ کر دوسرے شہر یا ملک جانے سے بھی گریز نہیں کرتے خاص طور پر پاکستانی جو اپنے وطن کے مقابلے میں بیرون ملک کمانے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں، جس میں امریکہ تو ان کے خوابوں کی جنت ہے جہاں پہنچنے کا خواب لگ بھگ ہر نوجوان کے ذہن میں بسا ہوا ہے۔

مگر اپنے وطن کے مقابلے میں بیرون ملک انہیں جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے خاص طور پر غیر مانوس کلچر اور پیاروں سے دوری کا احساس انہیں ہمیشہ ستاتا رہتا ہے تاہم وہاں کی زندگی انہیں اس قدر مصروف کردیتی ہے کہ وہ واپس آنا ہی بھول جاتے ہیں۔

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے کچھ اسی طرح کے مسائل اور خوشیوں کی عکاسی کر رہا ہے ڈرامہ سیریل 'جیکسن ہائٹس' جس میں نیویارک کے ایک علاقے جیکسن ہائٹس میں مقیم پاکستانیوں کی زندگیوں کو دکھایا گیا ہے۔

جیکسن ہائٹس مختلف دیسی کرداروں کی کہانی ہے جو اپنے اپنے مسائل سے نبردآزما ہیں، ڈرامے کا آغاز ان افراد کے حالات زندگی سے ہوتا ہے جو زندگی کی جدوجہد کر رہے ہوتے ہیں تاکہ اپنا اور اپنے وطن میں موجود پیاروں کی زندگیوں میں آسانی لاسکیں۔

سلمیٰ (آمنہ شیخ) ایک بظاہر سرد مہر یا محتاط لڑکی ہے جو بیوٹیشن کی حیثیت سے سخت محنت کر کے ترقی کی کوشش کر رہی ہے اور وہ کچھ ڈالرز کمانے کے کسی موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتی، مشیل (مرینہ خان) ایک پاکستانی نژاد خاتون ہیں جو جیکسن ہائٹس میں ایک ریسٹورنٹ چلا رہی ہیں اور پاکستان سے اپنا تعلق کاٹ کر اپنی پیشہ وارانہ اور ذاتی زندگی میں توازن برقرار رکھنے کی کوشش میں مصروف ہے۔عمران بھٹی(نعمان اعجاز) ایک ٹیکسی ڈرائیور ہے جو پاکستان میں اپنے پیاروں کے لیے کمانے میں مصروف ہے۔

جبکہ جمشید (عدیل حسین) ایک پرجوش نوجوان ہے جو امریکہ میں قدم رکھنے کے بعد یہ سوچ رہا ہے کہ مواقع اسے سونے کی پلیٹ میں رکھے ملیں گے کیونکہ اس کے چچا عمران بھٹی اچھا کما کر پاکستان میں اپنے خاندان کو سپورٹ کر رہے ہیں۔

ڈرامے میں راحت کاظمی کے بیٹے علی کاظمی بھی موجود ہیں جو ایک بدمعاش کا کردار نبھا رہے ہیں تاہم جیکسن ہائٹس میں اس کی دال گلتی نظر نہیں آتی۔

درحقیقت ابھی تک اس ڈرامے کی ایک ہی قسط نشر ہوئی ہے جو کرداروں کے تعارف کے گرد ہی گھومتی رہی مگر ہر اداکار اپنے کردار میں ڈھلا نظر آیا تاہم نعمان اعجاز عمران بھٹی کے کردار میں چھائے نظر آئے اگرچہ وہ کافی بے تکلف مزاج کا کردار تھا مگر وہ جیسی تنہائی محسوس کرتا ہے وہ احساس آپ تک بھی پہنچ جاتا ہے۔

خاص طور پر سلمیٰ سے جب عمران کی ملاقات ٹیکسی میں ہوتی ہے اور اس کے بعد رات کو اتفاقیہ ملاقات کے موقع پر وہ اس کے بارے میں کافی غلط تاثر لیتی ہے مگر عمران ایک مشکل وقت میں سلمیٰ کی مدد کرتا ہے اور اس کا پرانا تاثر مٹ جاتا ہے اور اسے اپنی زندگی کے تصورات پر نظرثانی کا موقع بھی ملتا ہے۔

درحقیقت پندرہ سال پہلے وہ امریکہ آیا تو اس کے بعد اسے واپسی کا موقع نہیں ملا کیونکہ وہ اپنے خاندان کے اخراجات پورے کرتا ہے جن کے مطالبات کبھی ختم نہیں ہوتے تاہم سب سے بے غرض اور حقیقی خواہش اس کی ماں کی ہے جو اپنے بیٹے کو دوبارہ دیکھنا چاہتی ہے۔

ایک اور کردار جو مرینہ خان میں دلچسپی لیتا نظر آتا ہے وہ (رضوان)عدنان جعفر کا ہے جو مشیل کے دوست کی حیثیت سے نظر آتا ہے جو ہمیشہ چڑچڑی رہنے والی مشیل کو مختلف شخصیت میں تبدیل کرکے ہنسنے پر مجبور کردیتا ہے۔

ڈرامہ کی پہلی قسط اتنی جاندار تھی اور اختتام ایسے موڑ پر ہوا کہ لوگوں کو اپنے سحر میں گم ک ردینے کے لیے کافی تھا جہاں نعمان اعجاز گھر واپس آتا ہے تو ایک موٹی سی امریکی سیاہ فام خاتون اسے 'ویلکم ہوم ہنی' کہتی ہے اور ڈرامہ ختم ہو جاتا ہے، اب ان کا کیا تعلق تھا اس بارے میں صرف اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے۔

اس ڈرامے کے ساتھ ہمایوں سعید کی پروڈکشن کمپنی سکس سیگما کا نام جڑا ہے جبکہ اس کی ہدایات مہرین جبار نے دی ہیں جو اس سے پہلے 'دام، رہائی اور فلم رام' چند پاکستانی وغیرہ سے اپنا نام بنانے میں کامیاب رہی ہیں۔

ڈرامے کا اسکرپٹ لکھا ہے واسع چوہدری نے جو پہلے بھی مشہور ڈراموں 'کالج جینز، جٹ اینڈ بونڈ جبکہ فلم میں ہوں شاہد آفریدی' کو تحریر کر چکے ہیں۔


ڈرامے کی کاسٹ کو اسٹار کاسٹ کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا کیونکہ اس میں نعمان اعجاز، آمنہ شیخ اور مرینہ خان جیسے نام شامل ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ نیچرل اداکاری سے اپنی پہچان بنانے والے عدیل حسین اور عدنان جعفر بھی کاسٹ کا حصہ ہیں۔

یہ ڈرامہ ہر جمعے کی شب رات آٹھ بجے اردو ون چینیل پر نشر ہوتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں