عمران خان اور طاہر القادری اسلام آباد سے واپسی کے لیے تیار؟

اپ ڈیٹ 28 ستمبر 2014
اسلام آباد میں آزادی مارچ کے شرکا— اے پی فوٹو
اسلام آباد میں آزادی مارچ کے شرکا— اے پی فوٹو

اسلام آباد : عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری لگتا ہے کہ اب وفاقی دارالحکومت سے نکلنے کا راستہ ڈھونڈ رہے ہیں کم از کم ہفتہ کی شب ان کی علیحدہ علیحدہ تقاریر سے تو یہی تاثر سامنے آتا ہے۔

عمران خان نے ڈی چوک میں ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا جاری رہے مگر وہ اپنے مقصد کی حمایت کے لیے ملک بھر میں جلسے کرنا چاہتے ہیں"ہم اتوار کو دیکھیں گے کہ لاہور شریف برادران سے تعلق رکھتا ہے یا پی ٹی آئی سے"۔

طاہر القادری جو پہلے ہی اپنی حامیوں سے وعدہ کرچکے ہیں کہ وہ عید پر اپنے گھر ہوں گے ، نے بھی انقلابیوں کو گھر واپسی کی 'گرین لائٹ' دکھاتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے ساتھ اپنی انقلاب کی تحریک کو بھی ملک بھر میں لے جائیں۔

عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے ترجمان عمر ریاض عباسی نے ڈان کو بتایا کہ ان کی جماعت کا دھرنے کے مقام پر جانوروں کی قربانی کا کوئی پروگرام نہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ہم عید پر لوگوں کو اپنے گھر واپس جانے کی اجازت دے سکتے ہیں تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ لوگوں کی واپسی کب سے شروع ہوگی۔

دونوں رہنماﺅں نے ہفتہ کو اپنے حامیوں سے وعدہ کیا کہ وہ اپنے مقصد کی حمایت کے لیے دیگر شہروں میں جلسے کریں گے جس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ دھرنے کی تھکاوٹ مظاہرین پر اثرانداز ہونا شروع ہوگئی ہے۔

پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان لگتا ہے کہ منتخب حکومت کے خلاف شروع کی گئی اس تحریک سے لطف اندوز ہورہے ہیں، ہفتہ کی شب اپنی تقریر میں انہوں نے وزیراعظم، جن کا استعفیٰ ان کا بنیادی مطالبہ ہے، کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے استعفے کو مزید چند روز تک اپنی جیب میں رکھیں۔

انہوں نے بچوں کے انداز میں مذاق کرتے ہوئے کہا"وہ مزید کچھ انتظار کریں تاکہ سب پاکستانیوں کو جگادیں ، ہمیں کوئی جلدی نہیں"۔

ہجوم بھی اس سے خوب لطف اندوز ہوئی اور کافی تالیاں بجائیں، عمران خان نے ن لیگ کی حکومت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا"ہم آگے اس دن کی جانب دیکھ رہے ہین جب ہم ان جھوٹوں کا عدالت میں سامنا کریں گے"۔

وہ اس بات پر خوش نظر آئے کہ حکمرانوں کے خلاف مقدمات کھل گئے ہیں اور توقع کا اظہار کیا کہ وزیراعظم، وزیر داخلہ اور اسلام آباد پولیس کے سربراہ کو انصاف کے کٹہرے تک لایا جائے گا۔

انہوں نےک ہا موجودہ حکومت پہلے ہی"ماضی کا قصہ بن چکی ہے"۔

انہوں نے وزیراعظم کے دورہ نیویارک کی منطق پر بھی سوال کیا"وہ یہ بیانات اسلام آباد سے بھی جاری کرسکتے تھے، وہ کچھ بھی اپنے ساتھ نہیں لارہے، ہندوستانی وزیراعظم نریندرا مودی کی جانب دیکھیں، اوبامہ سے لے کر امریکی بزنس مینوں تک سب اس سے ملنے کے لیے قطار میں کھڑے ہیں"۔

تھکاوٹ کے شکار کارکن

ڈاکٹر طاہر القادری کے اعلان کے بعد 45 دن سے شارع دستور پر موجود پی اے ٹی کے حامی اپنے خیمے پیک کرتے ہوئے اور گھر واپسی کی تیاریاں کرتے نظر آئے۔

اگرچہ متعدد افراد گھر واپسی پر خوش نظر آئے مگر وہ دارالحکومت میں اپنے قیام کے دوران کچھ حاصل نہ کرنے پر مایوس بھی تھے۔

رفاقت شیخ اپنے بچوں کے ہمراہ خیمے کو ہٹا رہے یں جبکہ ان کی بیوی سامان باندھ رہی ہیں۔

سکھر کے رہائشی رفاقت شیک چودہ اگست سے پی اے ٹی کے دھرنے میں شریک ہیں" میں طاہر القادری کے مقصد پر مکمل یقین رکھتا ہوں مگر یہاں ایسا لگنے لگا تھا کہ زندگی تھم کر رہ گئی ہے"۔

اس نے کہا کہ وہ اپنے شہر میں ملازمت کھو چکا ہے کیونکہ وہ دفتر سے بہت زیادہ دن تک غائب رہا"اگرچہ ہم گھر جانے اور عید اپنے خاندان کے ساتھ منانے کے خیال سے خوش ہیں مگر وہ انقلاب کہاں ہے جس کا وعدہ ڈاکٹر طاہر القادری نے کیا تھا"۔

چون سالہ ضمیر حسین مظفرگڑھ سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔

وہ پندرہ اگست کو اسلام آباد آئے تھے اور وہیں انہیں یہ خبر ملی کہ سیلاب کے نتیجے میں ان کا گھر تباہ ہوگیا ہے۔

انہوں نے کہا"میں سیلاب کے باعث اپنے گھر سے محروم ہوچکا ہوں کیونکہ میں اپنے آبائی گاﺅن میں اپنے اثاثوں کے تحفظ کے لیے موجود نہیں تھا"۔

انہوں نے مزید کہا"میں جانتا ہون کہ ہمیں گھر واپسی کی اجازت مل گئی ہے، مگر میں کہاں جاﺅں؟ میرے پاس تو اب کوئی گھر نہیں رہا"۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں