گو نواز گو کے نعرے: حمزہ شہباز تقریب سے جانے پر مجبور

اپ ڈیٹ 28 ستمبر 2014
لاہور میں حمزہ شہباز کی شرکت کے موقع پر ایک تقریب کے دوران ہال کے باہر طالبعلم گو نواز گو کے نعرے لگارہے ہیں— آئی این پی فوٹو
لاہور میں حمزہ شہباز کی شرکت کے موقع پر ایک تقریب کے دوران ہال کے باہر طالبعلم گو نواز گو کے نعرے لگارہے ہیں— آئی این پی فوٹو

لاہور : مسلم لیگ ن کے رہنماءحمزہ شہباز کو ہفتہ کو ایک تقریب میں اپنا خطاب اس وقت مختصر کرنا پڑگیا جب ان کی جانب سے اسلام آباد دھرنے کا ذکر کرنے پر برہم طالبعلموں نے اٹھ کر "گو نواز گو" کے نعرے لگانا شروع کردیئے۔

الحمرا آرٹ سینٹر میں عالمی یوم سیاحت کے حوالے سے ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن پنجاب(ٹی ڈی سی پی) کے ایونٹ سے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کرنے والے شریف خاندان کے فرزند کو سرخ چہرے کے ساتھ نکلنا پڑا۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ محکمے نے پنجاب یونیورسٹی کے ٹورازم ڈیپارٹمنٹ اور دیگر سرکاری تعلیمی اداروں سے اس ایونٹ کے لیے طالبعلموں کو بھیجنے کی 'درخواست' کی تھی۔

جس پر ان اداروں میں سے ہر ایک نے "ایونٹ کو کامیاب بنانے کے لیے" کم از کم بیس طالبعلموں کو بھیج دیا تھا۔

کسی بدانتطامی سے بچنے کے لیے انتظایہ نے طالبعلموں کی صبح نو بجے آمد کو یقینی بنایا تاہم مہمان خصوصی دوپہر کو ایک بجے تقریب میں پہنچے۔

چار گھنٹے کی تاخیر سے تنگ طالبعلموں کے سامنے حمزہ شہباز نے ملک میں سیاحت پر توجہ سے اپنی تقریر کا آغاز کیا۔

تاہم جیسے ہی ان کی تقریر کا رخ سیاست کی جانب مڑا ہال کا ماحول بدل گیا۔

ایک مضطرب خاتون نے حمزہ شہباز کی تقریر میں دخل دیتے ہوئے کہا"بہتر ہے کہ آپ خود کو سیاحت کے موضوع تک ہی محدود رکھیں، ہم یہاں سیاست پر لیکچر سننے کے لیے نہیں آئے"۔

نوجوان سیاستدان نے خاتون کو نظرانداز کریدا اور اپنی تقریر جاری رکھی۔

اس موقع پر طالبعلموں کا ایک گروپ کھڑا ہوگیا اور "گو نواز گو" کے نعرے لگانے لگا، جن کا ساتھ مزید طالبعلموں نے دیا اور وہ اکھٹے ہال سے واک آﺅٹ کرگئے۔

ہال کے باہر بھی وہ کافی دیر تک وی آئی پی کلچر اور شریف برادران کے خلاف نعرے بازی کرتے رہے۔

ٹی ڈی سی پی کا ایک عہدیدار نے فوری طور پر طالبعلموں سے چپ رہنے کی درخواست کی مگر انہوں نے اسے مسترد کردیا۔

دوسری جانب حمزہ شہباز بھی ان طالبعلموں کو نظرانداز کرنے کے مشورے کو 'نظرانداز' کرکے احتجاجی انداز میں وہاں سے پچھلے دروازے سے چلے گئے ۔

ایک استاد نے ڈان کو بتایا کہ طالبعلم مہمان خصوصی کا چار گھنٹے تک انتظار کرکے بیزار ہوچکے تھے" انہیں پانی تک پینے کی اجازت نہیں دی گئی، اور ایسا لگتا ہے کہ ان کا یہ غصہ حمزہ شہباز کے اوپر نکل گیا"۔

انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ پنجاب حکومت کی جانب سے احتجاجی طالبعلموں کے خلاف ان کے متعلقہ اداروں کے ذریعے ایکشن لیا جاسکتا ہے۔

پنجاب یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ایک طالبعلم نے نام چھپانے کی شرط پر ڈان کو بتایا"ہم یہاں سیاسی تقاریر سننے کے لیے نہیں آئے تھے، ہم ایسی تقریریں گھر میں ٹی وی پر بہت زیادہ سن چکے ہیں"۔

اس نے مزید کہا"ہم مہمان خصوصی کی تاخیر سے آمد پر بھی احتجاج کررہے تھے، ہمیں وی آئی پی کلچر کی حوصلہ شکنی کرنا چاہئے"۔

مسلم لیگ ن کے سابق صوبائی وزیر رانا ثناءاللہ نے صورتحال کو معمولی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ بھی ایسے لوگ پی ٹی آئی کے ایونٹس بھیج سکتے ہیں جو عمران خان مخالف نعرے لگا کر ایسے منظر تخلیق کرسکتے ہیں"ہم پانچ سے سات سو ن لیگی کارکن اتوار کو پی ٹی آئی کے مینار پاکستان کے جلسے میں بھیج کر عمران مخالف نعرے لگوا سکتے ہیں، یہ کوئی بڑی بات نہیں"۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی "خطرناک رجحان" کو فروغ دے رہی ہے۔

تبصرے (2) بند ہیں

Khuram Murad Sep 28, 2014 06:17am
حکمران واقعی کونگے بہرے ہیں۔ ہر جگہ ان کے ساتھ یہی ہو رہا ہے۔ پھر بھی انکے طرز حکمرانی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ پاکستان کا ایک بڑا حصہ سیلاب میں بہہ گیا ہے لیکن ہمارے وزیراعظم صاحب ایک کروڑ یومیہ کرایے والے ہوٹل میں رہ رہے ہیں۔ جناب وزیر اعظم عوام کے حقوق کو نہیں دبایا جا سکتا اور نہ ہی اب عوام کو ڈرایا جا سکتا ہے۔ ہمارے ٹیکس کا پیسہ آپکی اور آپکے خاندان کی عیاشیوں کے لئے نہیں ہے۔ اب پاکستانی قوم کو اٹھنا ہو گا اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے حقوق کے لئے۔ شکریہ طاہر القادری، شکریہ عمران خان ہمیں نیند سے بیدار کرنے کے لئے آپکی جدوجہد قابلِ تحسین ہے۔
bla bala Sep 28, 2014 01:45pm
میٹرو بس یا مریخ؟ ہماری ترجیحات کیا ہیں چوبیس ستمبر کو جب ہندوستان کی سیٹلائٹ مریخ کے مدار میں داخل ہوئی، تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا۔