'اسلام آباد میں پنجاب پولیس کے 'کارنامے

29 ستمبر 2014
— اے پی فوٹو
— اے پی فوٹو
— اے ایف پی فوٹو
— اے ایف پی فوٹو

اسلام آباد : علی خان سواتی نے پولیس کی بربریت کے بارے میں صرف سنا تھا، وہ بھی ٹیلیویژن، اخبارات اور سیاست سے دلچسپی رکھنے والے رشتے داروں یا دوستوں سے مگر پچیس سالہ یہ نوجوان اس چیز کے لیے بالکل تیار نہیں تھا جو بدھ کو ایچ نائن کے ہفتہ وار بازار کے قریب پنجاب پولیس کی چیک پوسٹ پر اس کے ساتھ پیش آیا۔

جب سے عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری اپنے حامیوں کو اس شہ میں لائے ہیں دارالحکومت میں ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے پولیس اہلکاروں کی نفری بھی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔

ان میں سب سے زیادہ معروف یا بدنام پنجاب پولیس کے دستے ہیں جنھیں گلیوں میں امن و امان کی صورتحال کو معمول پر رکھنے کے لیے اسلام آباد بھیجا گیا ہے۔

پنجاب پولیس کی بدنام زمانہ ساکھ کی وجہ اس کے مخصوص حربے ہیں، جبکہ دارالحکومت کے رہائشی جو اسلام آباد پولیس کے شائستہ روئیے کے عادی ہیں، کو پنجاب کے دستوں کی جانب سے عموماً غیرضروری تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

مگر علی خان سواتی کبھی بھی اس تجربے کے لیے تیار نہیں تھا جو اسے 'امن کے محافظوں' کے ہاتھوں اٹھانا پڑا۔

علی سواتی کی گاڑی پاکستان تحریک انصاف کے پرچم سے سجی ہوئی تھی جسے ایک چیک پوسٹ پر روکا گیا، پھر اس کی اور گاڑی کی باضابطہ چیکنگ کی گئی اور جب پولیس اہلکار نے جوتے کھولنے کا کہا تو علی نے احتجاج کیا تو اس کے ساتھ وہ ہوا جس کا اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔

ایک مقامی یونیورسٹی کے ایم بی اے کے اس طالبعلم نے بتایا "وہ ڈرائیور کی جانب والی کھڑکی کی طرف آیا اورگاڑی کی چابی نکال کر مجھے باہر آنے کا کہا، میں سیکٹر آئی ایٹ میں واقع اپنے گھر سے نکل کر ایف الیون کی جانب جا رہا تھا اور اس وقت رات کے دس بج رہے تھے"۔

اس نے مزید بتایا"جیسے ہی میں باہر آیا اس نے میرے پیٹ پر لات ماری، اس وقت جب میں اس ضرب سے سنبھل نہیں سکا تھا اس نے مجھے قریب ہی کھڑی قیدیوں کی گاڑی کی جانب دھکا دینا شروع کردیا، جس پر میں نے بھاگنا شروع کردیا دھکوں اور لاتوں سے بچنا چاہتا تھا"۔

علی نے مزید بتایا کہ اس نے دیکھا کہ ارگرد پولیس اہلکار نوجوانوں کو موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں سے نکال کر جمع کررہے تھے۔

جب اسے قیدیوں کی گاڑی میں ڈال دیا گیا تو اس نے دروازے پر موجود پولیس اہلکار سے درخواست کی کہ وہ گھر فون کرکے انہیں بتانا چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے، وہ پولیس اہلکار جو وفاقی پولیس کا عہدیدار تھا نے اس کی اجازت دے دی اور اس طرح علی خان سواتی کے والدین کو معلوم ہوسکا کہ ان کا بیٹا رمنا پولیس اسٹیشن پہنچ رہا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ علی سواتی نے پولیس اہلکاروں کو بتایا کہ وہ سابق سینیٹر اعظم خان سواتی کا رشتہ دار ہے، یہ سننے کے بعد اہلکاروں نے اسے قیدیوں کی گاڑی سے باہر نکالا اور اسے کہا کہ اپنی گاڑی میں واپس چلا جائے اور خود اس کے ساتھ بیٹھ کر اسے سیکٹر جی الیون کے تھانے کی جانب لے گئے، اس وقت رات کے ساڑھے گیارہ بجے تھے۔

آدھے گھنٹے بعد قیدیوں کی تین گاڑیاں تھانے پہنچیں اور 30 سے 35 نوجوانوں کو وہاں اتار دیا، پولیس اسٹیشن کے باہر کچھ فکرمند والدین پہلے ہی موجود تھے۔ تھانے کے اندر ایک چھوٹے سے لان میں علی سواتی اور دیگر نوجوانوں کو کئی گھنٹوں تک کھڑا رکھا گیا۔

علی کے مطابق اسے پانی پینے، ٹوائلٹ جانے یا اس جگہ سے ہلنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی، جبکہ اس دورانیے میں انہیں مسلسل پنجاب پولیس کے اہلکاروں کی جانب سے طنزیہ جملوں کا ہدف بنایا جاتا رہا۔

علی نے بتایا"انہوں نے ہمیں ایک چھوٹی سی حوالات میں ڈال دیا جہاں پہلے ہی تین قیدی موجود تھے، مجھ سمیت پندرہ افراد نے پوری رات کھڑے رہ کر گزاری جبکہ دیگر سترہ افراد باہر صبح ساڑھے سات بجے تک کھڑے رہے"۔

انہیں کچھ آرام اس وقت ملا جب ایس ایچ او جمشید خان صبح کو اپنی ڈیوٹی سنبھالنے کے لیے پہنے اور انہیں باہر نکالا گیا"وہ کافی خوش اخلاق ثابت ہوئے اور انہوں نے ہمیں آرام کی اجازت دی"۔

اس گروپ میں شامل نوجوانوں میں چار تو میٹرک کے طالبعلم تھے جن کی عمریں پندرہ سے سولہ سال سے زیادہ نہیں تھیں، وہ لوگ سینڈوریس مال میں شام کو تفریح کرکے ٹیکسی میں آرہے تھے کہ انہیں پکڑ لیا گیا، علی سواتی نے ایک چاٹ والے کو بھی پہچانا جسے وہ اکثر ڈی چوک میں دیکھتا تھا، پولیس نے اس کے دونوں بیٹوں اور بھتیجے کو بھی پکڑلیا تھا جو ابھی لڑکپن کی عمر میں ہی تھے۔

علی سواتی نے کہا"دو گریڈ اٹھارہ کے سرکاری ملازمین بھی ہمارے ساتھ تھے، ان کی عمریں تیس سال سے زائد اور وہ ہر ایک کی توجہ کا مرکز تھے، پنجاب پولیس کے اہلکار انہیں کسی بوری کی طرح گھسیٹ کر ڈال گئے تھے، ان کے کپڑے مکمل طور پر پھٹ گئے اور ان کے جسموں پر ہر جگہ خراشوں کے نشانات تھے"۔

محمد رضوان ایک اور بے بس شہری تھا جسے پنجاب پولیس کے اہلکاروں کے تشدد کا سامنا کرنا پڑا، وہ اور اس کے دو دوست جو جمیعت علمائے اسلام فضل الرحمان گروپ کے حامی تھے، جی سکس سے نماز پڑھ کر واپس آرہے تھے کہ انہیں پکڑ کر پولیس وین میں کسی بنڈل کی طرح ڈال دیا گیا۔

جمعرات کی دوپہر دو بجے ان نوجوانوں اور پچیس کے قریب دیگر افراد کو اسلام آباد ہائیکورٹ لے جایا گیا، علی سواتی اور دیگر پانچ کو پانچ ہزار کے مچلکے جمع کرانے پر ضمانت پر رہا کردیا گیا۔ رمنا پولیس اسٹشند کے اہلکاروں نے ڈان کو بتایا" ہمیں مزید گرفتاریوں کی ہدایت کی گئی تھی، تو یہی وجہ تھی کہ ہم نے ہر اس شخص کو پکڑ لیا جو ہمارے ہاتھوں میں آیا"۔

ایک سنیئر عہدیدار نے اپنا نام چھپانے کی شرط پر بتایا کہ پولیس کے محکمے کو پنجاب پولیس کے اہلکاروں کے مظالم پر فکرمندی ہے اور ان شکایات پر "غور" کیا جارہا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Akhtar Ali Syed Sep 29, 2014 09:41pm
PUNJAB POLICE IS NOTORIOUS IN ALL OVER THE WORLD IT SHOULD LEARN LESSON FROM ISLAMABAD AND N W F P POLICE