جدید ترین ریموٹ سینسنگ تکنیک اور باوثوق ڈیٹا کی مدد سے سیلاب کی بہتر پیشگوئی کی جاسکتی ہے۔ فائل تصویر رائٹرز

گزشتہ دو برسوں میں حاصل ہونے والے اسباق ہمیں یہ سکھا چکے ہیں کہ ملک میں سیلاب کی ممکنہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے طویل مدتی اور مستحکم منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور قسطوں میں ہونے والی کوششیں اس سلسلے میں ناکافی ہیں۔

اس بات کے پیش نظر ،نیشنل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا یہ اعلان کہ سیلاب کی صورتحال سے نمٹنے کیلئے منصوبہ بندی مکمل کی جا چکی ہے کسی خوشخبری سے کم نہیں ہے۔اسکے باوجوداسی اخبار میں جمعرات کے روز شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے سیلاب کی پیشین گوئی کرنے والے نظام میں خامیاں موجود ہیں۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے ایک منصوبہ کا موجود ہونا محض پہلا قدم ہے۔اگر سیلاب کی پیشگوئی کرنے والے نظام میں ہی نقص موجود ہوں تو اچھے سے اچھے منصوبہ بھی بے کار ثابت ہو سکتے ہیں۔ پاکستان بیرونی مدد سے اس ضمن میں ایک اہم ریموٹ سینسنگ ٹیکنالوجی بھی حاصل کرچکا ہے ۔مگر باوثوق معلومات کی کمی اور زمانہ قدیم کے موسمیاتی ریڈار کی موجودگی میں اس ترقی یافتہ ٹیکنالوجی کا سیلاب کی پیش گوئی کیلئے بھرپور استعمال نا ممکن نظر آتا ہے۔

جہاں تک سیلاب کی پیش گوئی کرنے والے نظام کا سوال ہے تواس میں موجود مسئلوں کو حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ خطرے سے دوچار علاقوں کو قبل ازوقت موثر طور پر خبردار کیا جاسکے۔ رہی بات این ڈی ایم اے کے ہنگامی منصوبہ کی تو اس پر ہر سطح پر عمل در آمد ہونا چاہئے۔مثال کے طور پر اس بات کی تسلی ہونی چاہئے کہ ماضی میں لگنے والے الزامات کی طرح با اثر شخصیات کو سیلابی پانی کا رخ کسی بھی طرف موڑنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔سامان کی نقل وحرکت کے مسائل کا بھی جلد از جلد حل ہونا ضروری ہے کیونکہ بے قاعدہ بارشوں کی پیشگوئی کی گئ ہے۔اس حوالے سے مرکز ی اور صوبائی حکومتوں کو درکا ر فنڈز کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ فنڈز کی کمی امدادی کاروائیوں میں کوئی خلل نہ پیدا کرسکے نیز خیموں اور کمبلوں کادرکار تعداد کا حصول بھی انتہائی اہم ہے۔مزید برآں خبروں کے مطابق پچھلے سیلاب میں تباہی کا شکار ہونے والے صوبہ سندھ میں دریائی بندوں اور پشتوں کی مرمت کا کام پایہ  تکمیل تک پہنچ چکا ہے۔البتہ ، کچے علاقوں میں موجود غیر قانونی قبضوں اور تجاوزات کو ختم کرنا ابھی باقی ہے۔ بے شک دریائی زمین اور انکے پشتوں پرتعمیرات کرنے والے خود کو خطروں میں ڈالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے اور یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ تجاوزات سے بھرپور ان علاقوں کو خالی کرایا جائے۔ قدرتی آفات سے حقیقتاًپہلے سے خبردار نہیں کیا جاسکتا۔مگر اسکے باوجود ایسے حالات سے نمٹنے کیلئے حد درجہ تیار ہونا بھی عین ممکن ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اس بار حکومت ہر سطح پر سیلاب اور اسکی تباہ کاریوں سے نمٹنے کیلئے تیار رہیگی۔

تبصرے (0) بند ہیں