کسی بھلے آدمی کا کہنا ہے کہ دنیا کے سبھی کام تین اقسام میں بانٹے جا سکتے ہیں۔ ایک، مشینوں کے ساتھ کیے جانے والے کام، جیسے کمپیوٹر آپریٹر، انجینئر، ڈرائیور وغیرہ۔ دوسری قسم ہے ذہنی صلاحیت کے بل پر کیے جانے والے کام، خیالات اور تصورات کی اینٹوں سے ایک نئی دنیا تعمیر کرنے کے کام، جنہیں کرنے والوں میں ادیب، شاعر، سائنسدان، فلسفی، محقق، مصور وغیرہ شامل ہیں۔ اور تیسری قسم کا کام وہ ہے جس کا تعلق اور واسطہ دوسرے لوگوں کے ساتھ ہے، جیسے ڈاکٹر کا کام مریضوں کے بغیر نہیں ہو سکتا اور استاد کا کام شاگردوں کے بغیر ممکن نہیں۔ کسی بھی کام کے بارے میں سوچیے وہ انہی تین اقسام میں کہیں نہ کہیں فٹ ہو جائے گا۔

یہاں تک تو بھلے آدمی کی بات بالکل درست ہے۔ لیکن مجھے شک ہے کہ وہ پاکستان اور پاکستانیوں کو نہیں جانتا ورنہ وہ ایک چوتھی قسم کا ذکر بھی کرتا اور اس کا نام شاید ’کام برائے نام’ رکھتا، جسے کرنے والے نجی اداروں میں نوکریاں کرتے ہیں، ذاتی کاروبار کرتے ہیں، یا سیلف ایمپلائیڈ ہیں لیکن مزے لوٹتے ہیں سرکاری نوکری کے۔

یعنی ماضی کے فلمی ویلین اسلم پرویز کے الفاظ میں جو اس نے نوکری کے انٹرویو کے لیے آئی ایک خوبصورت لڑکی کو اپنے مخصوص بدنیت انداز میں ملازمت کی شرائط بتاتے ہوئے کہے: ’تتنخواہ دس ہزار، کام کچھ زیادہ نہیں، اور جب جی چاہے کام پر آ جانا'۔

اب سرکاری ڈاکٹر اگر مہینوں سے مریضوں کو تڑپتا مرتا چھوڑ کر اپنی مراعات کے لیے ہڑتال پر رہے تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ سرکاری افسر جس کا کام ہی سائلوں کے مسائل حل کرنا ہے وہ مہینوں تک کسی سائل کی شکل نہ دیکھے تو بھی اس کو تنخواہ ملتی رہے گی اور سائلوں کو رو پیٹ کر خود ہی صبر آ جاتا ہے۔

سرکاری سکول کا استاد مہینوں تک اپنی کلاس کی بجائے اپنی کھاد کی ایجنسی کو پورا وقت دیتا رہے تو اس کی نوکری پر کوئی فرق پڑتا ہے نہ ہی شاگردوں کے مستقبل پر - - - سرکار کی حد تک تو یہ سب ہوتا ہی ہے، اور ہم اس پر بھی اتفاق کر چکے ہیں کہ ایسا صرف اس ملک میں نہیں باقی دنیا میں بھی ہوتا ہے۔

لیکن  جس پیشہ ور نے بڑی بڑی ڈگریاں لینے میں جان کھپائی ہو، معروف سینیئرز کی منت کر کے ان کی نگرانی میں پیشے کی عملی الف بے سیکھی ہو، برسوں کے تجربے کے بعد اس میں تھوڑا بہت نام بنایا ہو، اور اسی پیشے کو اپنا ذریعہ روزگار بھی مانا ہو، وہ کام سے بچنے کے بہانے سوچتا رہے، ایسا صرف  اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہوتا ہے۔

پاکستان میں ایسے پیشے، کاروبار، اور نوکریاں کثرت سے ہیں جن میں ’کام برائے نام’ کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ وکالت کو لیں۔

کوئی شخص اپنی خوشی سے وکیل کے پاس نہیں جاتا۔ اس کے پاس آنے والا ہر فرد کوئی مسئلہ، کوئی پریشانی، کوئی مصیبت لے کر آتا ہے۔ برسوں تک جرم اور سزا پر باتیں کہتے اور سنتے رہنے سے اور چور اچکوں کی صحبت میں اٹھنے بیٹھنے سے وکیل سڑیل، شکی مزاج، اور حس مزاح سے یکسر عاری ہو جاتا ہے۔ لیکن وہ بہت ملنسار بھی ہے۔

اس کے دروازے آپ کے لیے ہمیشہ کھلے ہیں۔ وہ کبھی آپ کو انتظار نہیں کروائے گا اور ہمیشہ چائے پانی کا پوچھے گا۔ آپ اسے کوئی بھی مسئلہ بتا کر دیکھیے وہ تھوڑی دیر تک اس پر سوچنے کے بعد آپ کو صاف صاف بتا دے گا کہ اس مسئلے کے حل پر سائل کا خرچ کتنا آئے گا اور اس کا کتنا حصہ ایڈوانس میں ملے گا تو وکیل حل تلاش کرنے کی پہلی کوشش میں قلم یا کمپیوٹر کو ہاتھ لگائے گا۔

ایک بار آپ نے کاغذ پر انگوٹھا لگا دیا اور ایڈوانس فیس ادا کر دی تو سمجھیں اس دن سے وکیل آپ کا دوست بھی ہے، بلکہ وہی آپ کا پرانا دوست بھی بنے گا کیونکہ مقدمے کبھی ختم نہیں ہوں گے اور نہ ہی آپ دونوں کا تعلق۔

وکیل اس تعلق کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ بلکہ یہ کہنا بجا ہو گا کہ اس کے پیشے میں مؤکل کے ساتھ رشتہ بنانے اور پھر زندگی بھر نباہنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ الٹا یہ رسک بھی اس پیشے میں لگا رہتا ہے کہ کوئی جج جلد بازی میں بارہ پندرہ سال کے اندر ہی فیصلہ سنا سکتا ہے، یا خدا نخواستہ مقدمے کے دونوں فریق یا ان کی دوسری یا تیسری نسل آپس میں صلح کر سکتے ہیں۔

لیکن پیشہ ور وکیل پوری دیانتداری سے اپنا کام کیے جاتا ہے۔ وہ بہت احتیاط سے یہ حساب رکھتا ہے کہ کس مقدمے کا جج کچھ زیادہ ہی پھرتیلا ہے اور اگلی تاریخ صرف مہینے بعد کی دیتا ہے تا کہ وہ اس مقدمے میں عدالت کے سامنے پورے سال میں صرف ایک بار حاضر ہو۔

اس کے لیے اسے دو جھوٹ بولنے پڑتے ہیں جن میں سے ایک اس کی جگہ اس کا منشی بولتا ہے اور عدالت کو بتاتا ہے کہ وکیل شدید بیماری یا خاندان میں کسی کے فوت ہونے کی وجہ سے حاضر نہیں ہو سکا۔ وہ خود مؤکل کو یہ بتاتا ہے کہ اس نے آج عدالت میں اپنے دلائل سے مخالف وکیل کے پرخچے اڑا دیے اور ایک موقعے پر تو جج کو میری دلیل اتنی پسند آئی کہ وہ فرمائش کر کے بار بار مجھ سے سنتا رہا۔

پاکستان کے کسی بھی شہر کی کسی بھی عدالت میں دن گزار کر دیکھ لیجیے، آدھے سے زیادہ مقدموں کی کارروائی اس لیے نہیں ہو پاتی کہ ایک یا دونوں وکیل غیر حاضر ہوتے ہیں۔ جو آتے ہیں ان کی ایک بڑی تعداد صرف یہ فرمائش کرنے آتی ہے کہ انہیں مزید وقت کی ضرورت ہے، اور ایسی فرمائشوں پر مخالف وکیل کبھی اعتراض نہیں کرتا۔ کچھ وکیل صرف مقدمہ داخل کروانے آتے ہیں اور اس کے بعد کبھی اس عدالت کا رخ نہیں کرتے۔

کچھ مؤکلین ضرورت سے زیادہ سمجھداری کا ثبوت دیتے ہوئے وکیل پر نظر رکھنے کو باہمی تعلق کا حصہ سمجھنے لگتے ہیں اور ہر تاریخ پر عدالت میں موجود رہنے پر اصرار کرتے ہیں۔ ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کے لیے وکیل نے ہڑتال، اور اس کے دوران ’عدالتوں کے بائکاٹ’ کا ہتھیار ایجاد کیا ہے۔

کسی جج نے کسی وکیل کو اس کی بد تمیزی پر ڈانٹ دیا تو ہڑتال، کوئی وکیل اپنی ذاتی دکان پر جعلی دوائیں بیچتا پکڑا گیا تو ہڑتال، کسی وکیل نے کسی کو قتل کرنے کی کوشش کی اور گرفتار ہوا تو ہڑتال، کوئی خود قتل ہو گیا تو ہڑتال، عدل اور انصاف کے مطالبے کے حق میں ہڑتال، اس حق کو دبانے والی پوشیدہ قوتوں کے خلاف احتجاج کے طور پر ہڑتال - - - اور ہر ہڑتال میں عدالتوں کا بائکاٹ۔

جب احتجاج اور ہڑتال کی کوئی صورت نہ بنتی ہو تو کشمیریوں یا فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے بھی عدالتوں کا بائکاٹ کیا جاتا ہے۔ اصل چیز بائکاٹ ہے، وجہ نہیں۔

ضرورت سے زیادہ سمجھدار مؤکل فجر کی اذان کے ساتھ گھر سے نکلتا ہے تا کہ ساڑھے آٹھ بجے عدالت پہنچ کر وکیل کی غیر حاضری پکڑ لے۔ لیکن اس سے پہلے یہ خبر پہنچ جاتی ہے کہ رات گئے کسی دور دراز تحصیل میں ایک وکیل کو شراب پی کر غل غپاڑہ کرنے اور معاملہ سلجھانے کی کوشش کرنے والے اہل محلہ کو سنگین دھمکیاں دینے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔

چند منٹ کے اندر وکلاء کی کسی مقامی، صوبائی یا وفاقی تنظیم کا عہدیدار، اپنے بستر سے پولیس گردی کے خلاف احتجاج اور عدالتوں کے بائکاٹ کا اعلان کر دیتا ہے۔ اور مؤکل پورا دن گنوا کر اور حسب اوقات خوار ہو کر واپس گھر کی راہ لیتا ہے۔

عدالت کے بائکاٹ کا ایک فائدہ وکیل کو یہ بھی ہوتا ہے کہ مقدمے کی تیاری میں وقت گنوانے کی بجائے وہ اپنی بھرپور کوششیں نئے وکالت ناموں پر دستخط کروانے اور ایڈوانس فیس وصول کرنے میں لگا سکتا ہے، پارٹ ٹائم سیاست کر سکتا ہے، اور اپنا سی این جی پمپ یا کریانے کی دکان بنا اور چلا سکتا ہے اور یوں اپنے خاندان کی خوشحالی اور ملک کی معاشی ترقی میں حصہ دار بن سکتا ہے۔

کام برائے نام کرنے والے اس ملک میں بہت ہیں، لیکن وکیل نے اپنی ذہنی اور تخلیقی صلاحیتوں کو جس طرح کام کی لعنت سے بچنے کے لیے استعمال کیا ہے، اور مؤکلین جو خود کو تیس مار خان سمجھتے ہیں انہیں ہر روز جس طرح تگنی کا ناچ نچایا ہے، اس کے لیے میرے اور ہر پیشہ ور کے دل سے ایک ہی آواز نکلتی ہے: ’وکیل تیری عظمتوں کو سلام’۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

نادیہ خان Jul 28, 2012 08:23am
بقول اکبر الہ بادی پیدا ہویے وکیل تو ابلیس نے کہا لو آج میں بھی صاحبِ اولاد ہو گیا.