رؤف صدیقی- فائل فوٹو

کراچی/لاڑکانہ: سندھ کے وزیرِ صنعت و تجارت رؤف صدیقی نے سانحہ بلدیہ ٹاؤن پر اپنے عہدے سے مستعفیٰ  ہوگئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ رضاکارانہ طور پر آگے آئے تاکہ اس بات کو غلط ثابت کرسکیں کہ پاکستان میں کسی افسوس ناک واقعے کے بعد قانون ساز اور وزراء اپنے عہدے سے مستعفی نہیں ہوتے۔

انہوں نے مزید کہا کہ دو اہم ادارے - شہری دفاع اور لیبر سیکشن – جو کہ حفاظتی اقدامات کے لئے ذمہ دار ہیں، وہ ان کے اتھارٹی میں نہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہیں لوگوں کو فیکٹری میں مرتے ہوئے دیکھنا پڑا۔

جمعہ کی دوپہر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنا استعفی گورنر سندھ ڈاکٹرعشرت العباد خان اور وزیر اعلی قائم علی شاہ  کو بھجوا دیا ہے۔

رؤف صدیقی نے کہا کہ انہوں نے استعفی اس لیئے دیا تاکہ اس معاملے کی عدالتی تحقیقات شفاف طریقے سے ہوسکیں اور وہ خود بھی پوچھ گچھ کے لیئے بلائے جاسکیں۔

اس کے علاوہ سندھ ہائی کورٹ کی لاڑکانہ بنچ نے فیکٹری مالکان کی سات روز کی عبوری ضمانت منظور کرلی ہے۔

جن ملزمان کی ضمانت منظور کی گئی ان میں فیکٹری کے مالک عبدل عزیز بیلہ اور ان کے دو بیٹے ارشد عبدل عزیز اور شاہد عبدل عزیز شامل ہیں۔ ضمانت سندھ ہائی کورٹ لاڑکانہ بنچ نےپانچ پانچ لاکھ روپے کے عوض منظور کی ۔

بلدیہ ٹاؤن کی اس بدقسمت فیکٹری میں آگ لگنے سے دو سو اٹھاون افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

اس کے علاوہ امیگریشن، ایف آئی اے کے ڈائریکٹر، کو کورٹ نے ہدایت کی ہے کہ درخواست گزاروں کو ملک سے باہر نہ جانے دیا جائے۔

کورٹ کے پاہر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے شاہد عبدل عزیز اور ارشد عبدل عزیز کا کہنا تھا کہ وہ خود بھی تحقیقات کا حصہ بننا چاہتے ہیں تاکہ اس آگ کی اصل وجہ پتہ چل سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں جیسے ہی اس حادثے کی خبر ملی وہ ویسے ہی فیکٹری پہنچے اور سٹاف کو فوراً فیکٹری کو خالی کرنے کو کہا۔

ان لوگوں کا مزید کہنا تھا کہ وہ عدالت میں اپنی بےگناہی ثابت کریں گے اور اس متاثر ہونے والوں کو معاوضہ دینے کو بھی تیار ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ وہ زخمیوں کے علاج کا خرچہ بھی اٹھائیں گے۔

ارشد عزیز کا کہنا تھا کہ آگ بجھانے والا عملہ ڈیڑھ گھنٹہ دیر سے پہنچھا اور آگر وہ صحیح وقت پر پہنچ جاتے تو یقیناً کم لوگ ہلاک ہوتے۔

انہوں نے خارجی دروازے کے بند کے دعوے کو غلط قرار دیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں