پاکستان میں، ایک تخمینے کے مطابق سن اُنیسو چھیاسی سے لے کر دو ہزار بارہ تک، مجموعی طور پر 1272 افراد کو توہینِ مذہب کے قانون کے تحت گستاخی مذہب یا توہینِ رسالت کے الزام کا سامنا کرنا پڑا۔

توہینِ مذہب کے موجودہ قانون کو جنرل ضیا ء الحق کے زمانے میں، سن انیسو چھیاسی میں قانون کا حصہ بنایا گیا تھا۔

 توہینِ مذہب سے متعلق تعزیراتِ پاکستان کی یہ شِق تقسمِ ہِند سے قبل 1860 میں قانون کا حصہ بنائی گئی تھی۔

 تعزیرات کی شِق 295 جسے عرفِ عام میں توہینِ رسالت قانون  کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، مذہبی نوعیت کے جرائم سے متعلق ہے، جس کے معنیٰ مذہبی تشدد کوروکنا ہے۔ 1986 سے قبل، صرف چودہ ایسے مقدمات سامنے آئے، جن پراس شق کا اطلاق ہوا تھا۔

توہینِ مذہب قانون کے تحت گستاخِ رسول کی سزا موت جب کہ توہینِ قرآن کے مرتکب کی سزاعمر قید ہے۔

 ذرائع کے مطابق اس قانون کے تحت لگائے گئے توہین کے الزام میں مقدمے کا سامنا کرنے والے اکیاون افراد کو سماعت مکمل ہونے سے پہلے ہی قتل کردیا گیا۔  مزیدِ برآں، اس قانون کے تحت دی گئی سزائے موت کے فیصلے پر آج تک عمل نہیں ہوا۔

1990

لاہورمیں اسلام چھوڑ کر عیسائی مذہب اختیار کرنے والے طاہراقبال پراذان کے وقت نبی آخرالزماں کی شان میں گستاخانہ کلمات کہنے اور اپنے پاس ٹیوشن پڑھنے والے بچوں کو اسلام مخالف تعلیم دینے کا الزام لگا۔

وہیل چیئر پر چلنے پھرنے والا اقبال، فالج سے پہلے پاکستان فضائیہ میں انجینئر تھا۔ وہ لاہور کی ایک مسجد کے قریب رہتا تھا۔ مذہب تبدیل کیے جانے کے باعث اس کے بہت سے دشمن ہوگئے تھے۔ ممکن ہے کہ اسی بنا پر مقامی عالم نے اسے اذان کے دوران توہینِ رسالت کا مرتکب ٹھہرایا۔

اس کے خلاف شانِ رسالت کے بارے میں گستاخانہ کلمات کہنے، اپنے پاس ٹیوشن پڑھنے والے بچوں کو اسلام مخالف تعلیمات دینے، سبزمارک اپ سے قرآنِ پاک پر لکیریں کھینچ کراس کا تقدس پامال کرنے کے الزامات کے تحت مقدمہ درج ہوا۔

سیشن کورٹ کے جج نے تعزیراتِ پاکستان کی ایک شِق کی غلط تشریح کرتے ہوئے اسے ضمانت پر رہا کرنے سے انکار کیا۔ درخواستِ ضمانت مسترد کرنے کے لیے اس کے تبدیلیِ مذہب کو جواز بناتے ہوئے جج نےلکھا:

 'اسلام چھوڑ کر عیسائی مذہب اختیار کرنا بذاتِ خود ایک سنگین جرم اوراس کے سنگین مضمرات ہیں۔ لہٰذا اس موقع پر میں ملزم کو ضمانت کی رعایت دینے پر غور نہیں کرسکتا۔'

مزیدِ برآں، تعزیراتِ پاکستان میں تبدیلیِ مذہب تسلیم شدہ جرم نہیں ہے۔ اگرچہ ملزم کی جسمانی صحت کے بارے میں عدالت کے سامنے ڈاکٹر کا تصدیق نامہ پیش کیا گیا تھا، تاہم اس سے بھی درخواستِ ضمانت کے عدالتی فیصلے پر کوئی اثر نہیں پڑا۔

جولائی 1992 میں اقبال جیل میں دورانِ حراست مبینہ طور پر زہر دیے جانے سے ہلاک ہوگیا۔

1991

کراچی کا اٹھائیس سالہ چاند برکت چوڑیوں کا ٹھیّہ لگاتا تھا۔ اس پرعارف حسین نامی چوڑیوں کے دوسرے  ٹھیے والے نے کاروباری رقابت کی بنا پرتوہینِ رسالت کا الزام لگایا۔

عدالت نے پندرہ مہینوں تک اس کی درخواستِ ضمانت منظور نہ کی تاوقتیکہ چھ مسلمان گواہوں نے عدالت کے روبرو پیش ہو کر یہ بیان نہ دیا کہ اُن کے پاس ایسے کوئی ثبوت اور شواہد موجود نہیں کہ ملزم نے توہینِ رسالت کی ہو۔

 آخرِ کار 1993 میں اسے بری کردیا گیا مگر اپنے محلہ داروں کے ہراساں کرنے پر اسے روپوش ہونا پڑا۔

اطلاعات کے مطابق برکت کو ملوث کرنے والے نے اُس کی عدالت سے بریت کے بعد، قتل کرنے کے لیے چھ لوگوں پر مشتمل گروپ تشکیل دیا۔ جس کے باعث وہ کراچی چھوڑنے اورروپوش ہونے پرمجبور ہوا۔

**

فیصل آباد کے خواجہ سرا گل مسیح پر الزام لگایا گیا کہ اس نے نبی پاک اور ازواجِ مطہرہ کی شان میں ناشائستہ زبان استعمال کی ہے۔

یہ شکایت کرنے والا گل مسیح کا ہمسایہ سجاد حسین تھا، جس سے گلی میں لگے ایک نلکے کی مرمت پر اُس کی منہ ماری ہوچکی تھی۔

مزیدِ برآں، اطلاعات تھیں کہ دونوں کے درمیان معاملہ اُسی روز ہی رفع دفع ہوگیا تھا اوراس کے چند روزبعد خواجہ سرا کے خلاف درج کرائی گئی شکایت سیاسی بنیاد پر تھی۔

ایک انٹرویو میں حسین نے اس بات سے انکار کیا تھا کہ اُن کے درمیان معاملہ رفع دفع ہوچکا تھا۔

گل اوراس کے بھائی بشیرکو توہینِ رسالت کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔ بعد ازاں، جب گاؤں والے تھانے پہنچے اور انہوں نے مسیح فیملی کی گرفتاری پر احتجاج کیا تو پولیس نے شواہد کی عدم موجودگی کے باعث بشیر کو رہا کردیا۔

عدالت میں تین عینی گواہ پیش کیے گئے مگر شکایت گزار کے سوا کسی نے یہ گواہی نہیں دی کہ اُس نے اپنے کانوں سے ملزم کو ایسے کلمات کہتے سنا ہو، جن سے شانِ رسالت کی توہین واقع ہوتی ہو۔

اس کے باوجود، جج طالب حسین بلوچ نے 1992 میں ملزم کو مجرم ٹھہراتے ہوئے سزائے موت سنادی۔ یوں یہ پاکستان کا وہ پہلا مقدمہ بن گیا جس میں ملزم کو قصور وار ٹھہرکر کال کوٹھری میںپھینک دیا گیا ہو۔

بلوچ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ: 'مدعی سجاد حسین اکیس سال کا خوبرونوجوان، بی اے کا طالب علم ، سچا مسلمان اور باریش چہرے والا ہے۔ میں نے ایسی کوئی وجہ نہیں پائی کہ اس کی گواہی پر یقین نہ کروں۔'

رہائی کے بعد بشیر کو کوئی ملازمت یا مزدوری نہ مل سکی۔ اطلاعات کے مطابق جیل میں گل پر تشدد کیا گیا۔ خوش قسمتی سے وہ بری ہوگیا۔ بعد ازاں، اس نے جرمنی میں سیاسی پناہ حاصل کرلی۔

1992

اسّی سالہ انسان دوست مسلمان اختر حمید خان پرایک ہندوستانی صحافی کو انٹرویو دینے کے دوران مبینہ طور پر گستاخانہ کلمات ادا کرنے کا الزام لگا کر گرفتار کیا گیا۔ بعد ازاں، ایک بار پھر انہیں اسی الزام میں گرفتار کیا گیا۔

 انہوں نے بچوں کے لیے ایک نظم لکھی تھی جس کی تشریح کرنے والوں کے مطابق اس سے نبی پاک اور اہلِ بیت کی توہین کا پہلو نکلتا ہے۔

خان معروف سماجی کارکن تھے جنہوں نے اورنگی پائلٹ پراجیکٹ شروع کیا۔ اُن کی خدمات پر متعدد عالمی اعزازات دیے گئے تھے۔

انہیں پہلی بار اُس وقت توہینِ رسالت کے الزام کا سامنا کرنا پڑا تھا، جب ملازمت سے فارغ کیے گئے اُن کے ادارے کے ایک ملازم نے کہا کہ خان نے ایک انٹرویو میں گستاخانہ کلمات ادا کیے تھے۔

اس الزام کا واحد ثبوت ایک ناقص آڈیو ریکارڈنگ تھی، جسے بعد میں عدالت نے غیر مصدقہ قرار دے دیا۔

خان پر دوسری بار یہ الزام اس وقت لگا جب عالمِ دین احترام الحق تھانوی نے الزام لگایا کہ بچوں کے لیے لکھی اُن کی کہانیوں کی کتاب میں دامادِ رسول حضرت علی کی توہین کی گئی ہے۔

کہانیوں کی کتاب کا نام تھا 'شیر اور احمق'۔ یہ اس بچے کی کہانی تھی جو ایک شیر پالتا ہے۔

 اس الزام کے بعد خان نے ایک انٹرویو میں وضاحت کی وہ کہانی جنرل ضیاء الحق اور ذوالفقار علی بھٹو کر کرداروں پر مبنی تھی۔

انیس سو بانوے میں وفاقی حکومت کے احکامات پر، خان کے خلاف دائر دونوں مقدمات واپس لے لیے گئے۔ متعدد مسلم عالمِ دین نے دونوں مقدمات میں پیش کیے گئے شواہدات کا تجزیہ کیا اور نتیجے میں کہا تھا کہ ان سے توہینِ رسالت یا گستاخی کا کوئی پہلو نہیں نکلتا۔

**

تینتالیس سالہ نعمت احمر فیصل آباد کا ایک عیسائی ٹیچر تھا۔ نعمت کے ساتھی اس کی پیشہ ورانہ ترقی سے خوش نہیں تھے۔

انہوں نے اپنے ایک طالب علم فاروق احمد کو قائل کیا کہ نعمت نے توہینِ رسالت کی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ وہ قانون ہاتھ میں لے لے۔

احمد کو یقین آگیا کہ نعمت نے نبی کی شان میں گستاخی کی ہے۔ اس نے ڈنڈے مار مار کر اُسے ہلاک کردیا۔

احمد کو اس جرم پر چودہ سال قید کی سزا ہوئی۔ اطلاعات کے مطابق وہ جیل میں اپنے اس فعل پر فخر کرتا ہے۔

**

۔— رائٹرز فوٹو

اسی سال اسّی سالہ بنتو مسیح اور پچاس سالہ مختار مسیح کو توہینِ رسالت کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ بنتو پر لاہور کے پولیس تھانے میں آٹھ مرتبہ حملہ ہوا اوراسے مارا پیٹا گیا۔

پولیس نے اسے قائل کیا کہ اگر وہ توہین کے الزام سے بچنا چاہتا ہے توان پُرتشدد حملوں کے خلاف مقدمہ دائرنہ کرے۔

مزیدِ برآں، بہت مختصر عرصے میں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہوگیا۔ مختار پولیس تحویل میں ہونے والے تشدد کے باعث تھانے میں ہی ہلاک ہوا۔

1993

فروری میں، پنجاب کے علاقے سمندری کے رہنے والے انوارمسیح کو دکان دارسے تلخ کلامی کے بعد مبینہ توہینِ رسالت کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ انوار مسیح دو مرتبہ اسلام قبول کرنے کے بعد عیسائی مذہب اختیار کرچکا تھا۔

 اس کے خلاف پولیس مقدمہ حاجی محمد طیب نے دائر کیا تھا۔ طیب، انجمنِ سپاہ صحابہ کا مقامی رہنما تھا۔ جس کا کہنا تھا کہ اس نے گستاخانہ کلمات سنے تھے۔

مسیح پر الزام لگایا گیا کہ اس نے دکان دار محمد اسلم کے ساتھ بحث کے دوران اسلام کے خلاف توہین آمیز کلمات کہے تھے۔

**

گیارہ سالہ سلامت مسیح، اڑتیس سالہ منظور مسیح اورچوالیس سالہ رحمت مسیح کے اوپر مسجد کی دیوار پرتوہین آمیز کلمات لکھنے کا الزام لگایا گیا۔

امامِ مسجد کا اپنے الزام میں کہنا تھا کہ انہوں نے کاغذ پر توہین آمیز کلمات لکھ کرمقامی مسجد کے اندر پھینکا اور پھر بعد میں مسجد کی دیوار پر گستاخانہ کلمات لکھے۔

سلامت مسیح اور منظور مسیح ان پڑھ تھے لیکن اس کے باوجود مئی میں ان تینوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ امام مسجد کا کہنا تھا کہ اس نے مسجد کی دیوار پر لکھی تحریر مٹا ڈالی تھی کیونکہ وہ گستاخانہ تھی۔

سلامت مسیح کو کمسن ہونے پرعدالت سے ضمانت مل گئی۔ بعدازاں منظور اور رحمت جنوری 1994 میں ضمانت پر رہا ہوئے۔

اپریل میں، منظور کو پیشی بھگتا کرعدالت سے باہر نکلتے ہوئے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے باہرگولیاں مار کرہلاک کردیا گیا۔ سلامت اور مسیح زخمی ہوئے مگر زندہ بچ گئے۔

فروری 1995 میں سلامت اور رحمت کو موت کی سزا سنائی گئی، تاہم بعد میں لاہورہائی کورٹ نے قابلِ اعتراض مواد کی بنا پر ہی یہ کہتے ہوئے بری کردیا کہ عیسائی عربی زبان و تحریر سے واقف نہیں۔ انہیں تو یہ بھی معلوم نہیں ہوگا کہ عربی میں اللہ کا نام کس طرح لکھا جاتا ہے۔

بعد ازاں، قتل کی دھمکیاں ملنے کے بعد وہ دونوں ملک چھوڑ گئے۔

انیس سو ستاونے میں جسٹس عارف اقبال بھٹی کو مبینہ طور پر رحمت اور سلامت مسیح کو بچانے کے الزام میں، لاہور ہائی کورٹ کے چیمبرمیں قتل کردیا گیا۔

 انیس سو اٹھانوے میں پولیس نے شیر خان نامی ایک شخص کو گرفتار کیا۔ اس نے اعتراف کیا کہ اس نے جج کو اس لیے قتل کیا کہ انہوں نے رحمت اور سلامت مسیح کو بری کردیا تھا۔

مزیدِ برآں، شیر خان پولیس تحویل سے پُراسرار طور پر فرار ہوگیا۔

**

نومبر 1997 میں احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ریاض احمد، ان کے بیٹے اور دو بھتیجوں کو میانوالی پولیس نے، ان کے مبینہ گستاخانہ کلمات کی بنا پر گرفتار کیا۔ ۱۹۹۷ میں، سپریم کورٹ نے ریاض احمد، ان کے بیٹے اوردو بھتیجوں کی ضمانت منظور کرلی۔

1994

گھر میں ں قرآنِ پاک شہید ہونے کے خبر گرم ہونے پر، مشتعل ہجوم نے ایک مسلمان حافظ فاروق سجاد کو سنگسار کردیا۔ مقامی مسجد سے اعلان ہوا تھا کہ ایک عیسائی نے قرآنِ پاک کو جلادیا ہے۔ اس کے بعد مشتعل ہجوم سجاد کے گھر کے باہر جمع ہوگیا۔

ہجوم نے سجاد کومارا پیٹا۔ اس کے بعد پولیس آئی اوراسے اپنی تحویل میں ساتھ لے گئی۔ مزیدِ برآں، ہجوم تھانے پہنچ گیا اور سجاد پر سنگ باری کے بعد آخر اسے آگ لگادی۔ جان بچانے کے لیے پولیس اُس مقام سے بھاگ گئی تھی۔

1995

جولائی 1995 میں، لاہور کی ایک ٹیچر کیتھرین کے اوپر، تنخواہ کی ادائیگی کے تقاضے پر، توہینِ رسالت کا الزام لگادیا گیا۔ اگرچہ یہ الزام رسمی طور پر عائد نہیں کیا گیا تھا مگر پھر بھی اُس کے بعد سے شاہین روپوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

1996

بھٹہ مزدورایوب مسیح کو اس الزام پر توہینِ مذہب قانون کے تحت گرفتار کیا گیا کہ وہ عیسائیت کی تبلیغ کرتا ہے اورلوگوں کو 'شیطانی آیات' یا 'سیٹنک ورسز' کتاب کے مصنف سلمان رشدی پرسلام بھیجنے کی دعوت دیتا ہے۔

ایک مسلمان ہمسائے نے اس کے خلاف مقدمہ درج کراتے ہوئے کہا کہ ایک نجی گفتگو میں مسیح نے اس سے کہا کہ عیسائیت اسلام سے بہتر ہے اوراس نے رشدی کے ناول کی تعریف کی۔ مسیح کے مطابق اسے پھنسایا گیا ہے تاکہ اُس کی زمین ہتھیائی جاسکی۔

انیس سو ستانوے میں مدعی نے ساہیوال کی ایک عدالت کے باہر مسیح پرگولی چلادی مگراس کی زندگی بچ گئی۔

انیس سو اٹھانوے میں مسیح کو سزائے موت سنادی گئی لیکن اپریل میں بشپ جان جوزف کی خودکشی کے بعد سزا معطل کردی گئی۔ جوزف نے مسیح کی سزا کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے خودکشی کرلی تھی۔

انیس سو نناوے میں اس پر جیل کے اندر موجود سزائے موت کے دیگر چار قیدیوں نے حملہ کیا لیکن حملہ آوروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

دو ہزار دو میں مسیح کو رہا کردیا گیا۔ اس کے وکیل نے عدالت کے روبرو یہ نکتہ اٹھایا تھا کہ الزام زبانی بنیاد پر عائد کیا گیا ہے اوربیان کی تائید میں کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔

2002

فزیشن یونس شیخ  پران کے طالب علموں نے لیکچر کے دوران گستاخانہ کلمات ادا کرنے کا الزام عائد کیا۔

اطلاعات کے مطابق لیکچرکے دوران شیخ نے کہا کہ نبی محمد ( صلّی اللہ علیہِ وسلّم) عمر کے چالیس سال تک مسلمان نہیں تھے تاوقتیکہ انہیں اللہ کی طرف سے پہلی وحی نہ ملی۔

ایک جج نے شیخ کو ایک لاکھ روپے جرمانہ اورموت کی سزا سنائی۔ شیخ نے مقدمے کی ازسرِ نو سماعت کی درخواست کی۔ 2003 میں وہ بری ہوئے اورحفاظتی وجوہات کی بنا پر یورپ چلے گئے۔

**

توہینِ رسالت کے الزام میں گرفتارایک پچپن سالہ مسلم عالمِ دین محمد یوسف علی کو جیل میں سپاہ صحابہ کے ایک کارکن نے گولی مارکرقتل کردیا۔

علی مذہبی تشدد کا مخالف تھا اور وہ کھلم کھلا اس کی مذمت کرتا تھا۔ اس کے خلاف مقدمہ ایک مسلح گروپ نے درج کرایا تھا جو اس کے خیالات سے متفق نہیں تھا۔  اسے سن دو ہزار میں سزائے موت سنائی گئی۔

**

اسی سال جولائی میں ایک ایڈیشنل سیشن جج نے ماہی پروری محکمے کے سابق افسر انور کینتھ کو توہینِ رسالت کے جرم میں پانچ لاکھ روپے جرمانہ اور موت کی سزا سنائی۔ استغاثہ کے مطابق  وہ 'گوسپل آف جیسس' نامی پمفلٹ تقسیم اورخود کے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہوا پکڑا گیا۔

میڈیکل رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ اس کا دماغی توازن درست نہیں۔

2003

ایک عیسائی سیموئیل مسیح کو گرفتار کیا گیا۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے مسجد کی دیوار پر تھوک کراس کا تقدس پامال کیا ہے۔

وہ پولیس تحویل میں ہی تھا کہ اسے ٹی بی کا عارضہ لاحق ہوگیا۔ اسےعلاج کے لیے امراضِ سینہ کے گلاب دیوی ہسپتال بھیجا گیا۔

جہاں اس کی حفاظت پرمعمور پولیس والوں میں سے ایک فریاد علی  نے اسے قتل کردیا۔

اس نے دوسرے افسران کی آنکھوں کے سامنے ہتھوڑا مار کر اسے قتل کیا اور پھر دعویٰ کیا کہ بطور مسلمان یہ اس کا فرض بنتا تھا کہ وہ مسیح کو قتل کردے۔

مسیح کے خاندان کے مطابق انہیں موت کی اطلاع قتل کودو روز گزرجانے کے بعد دی گئی۔ علی کو رسمی طور پر قتل کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔

**

پولیس نے انور مسیح کو تعزیرات کی دفعہ 295 کے تحت، اُس کے ہمسائیوں کی اس شکایت پر گرفتار کرلیا کہ اُس نے قرآن کی بے حرمتی کی ہے۔

اس کے خلاف مقدمہ نصیر احمد کی مدعیت میں درج ہوا، جس نے عیسائیت چھوڑ کر اسلام قبول کیا تھا۔ اطلاعات تھیں کہ اس سے پہلے ہی ان دونوں کے درمیان تنازعہ موجود تھا۔

مسیح کو دو ہزار چار میں بری کردیا گیا مگراس کے بعد وہ روپوش ہوگیا۔

**

منور مسیح خیبر پختونخواہ سے شائع ہونے والے روزنامہ فرنٹیئر پوسٹ سے منسلک صحافی تھا۔ اسے توہینِ رسالت پر ایک ایسا مراسلہ لکھنے پرعمر قید کی سزا دی گئی، جس نے ملک گیر احتجاج کو جنم دیا تھا۔

اس نے ایک خط لکھا تھا، جس کا عنوان تھا '،مسلمان یہودیوں سے نفرت کیوں کرتے ہیں'، جس میں مبینہ طور پر، اسلام پر تنقید کی گئی تھی۔ فرنٹیئر پوسٹ نے خط شائع کرنے پر معافی مانگی لیکن پھر بھی صحافی کے خلاف مقدمہ دائر کردیا گیا۔

 عمر قید کے علاوہ محسن کو پانچ لاکھ روپے جرمانہ کی سزا بھی دی گئی تھی۔

**

2005

اگست 2005 میں انسدادِ دہشت گردی کے ایک عدالت نے یونس مسیح کو توہینِ قرآن کا مرتکب پایا۔ اس نے کتاب لکھی تھی 'شیطان مولوی'۔ جس میں کہا گیا تھا اسلام میں زنا پر سنگساری کا تصور موجود نہیں۔ جج نے اسے ایک لاکھ روپے جرمانہ اور عمر قید کی سزا سنائی۔

**

نومبرمیں، ایک وکیل پرویزاسلم چودھری، جوتوہینِ مذہب کے ملزمان کی پیروی کرتا تھا، پرمبینہ الزام لگایا کہ اس نے ماچس کی جلتی تیلی ایک دینی مدرسے میں پھینکی تھی۔ اسے لاہور ہائی کورٹ کے باہر مارا پیٹا گیا۔ اس سے قبل بھی اسے مارنے پیٹنے کے علاوہ دھمکیاں ملتی رہتی تھیں۔

2006

قمر ڈیوڈ کو بعض مسلم افراد کے اس الزام کے بعد گرفتار کیا گیا کہ اُس نے انہیں توہین کے زمرے میں آنے والے پیغامات ایس ایم ایس کیے تھے۔ اسے سن دو ہزار دس میں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

سن دو ہزار گیارہ میں، اطلاعات کے مطابق، وہ دل کا دورہ پڑنے سے جیل میں ہی انتقال کرگیا۔

**

ستمبرمیں، شاہد مسیح کو آیاتِ قرآنی پر مبنی صفحات پھاڑنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ اسے جیل میں ایک پولیس افسر نے تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ اسے سن دو ہزار سات میں عدم ثبوت کی بنا پر بری کردیا گیا۔

2007

قصور سے تعلق رکھنے والی مارتھا بی بی کو نبیِ پاک کی شان میں گستاخانہ کلمات کہنے پر گرفتار کیا گیا۔

اطلاعات کے مطابق، اس پر الزام لگانے والا ٹھیکیداراس سامان کی قیمت ادا نہیں کرنا چاہتا تھا، جواس نے مارتھا بی بی سے خریدا تھا۔ بعد ازاں، اسے ضمانت پر رہا کردیا گیا۔

**

پینتالیس سالہ سلامت مسیح  کو دیگر چار عیسائی باشندوں کے ساتھ گرفتار کیا گیا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے اللہ کے اسمِ مبارکہ پر مبنی ایک پوسٹر کا تقدس پامال کیا تھا۔

**

اپریل میں، کوٹری میں اٹھائیس سالہ ستارمسیح کو مبینہ طور توہینِ مذہب کے الزام میں مشتعل ہجوم نے پکڑ کرمارا پیٹا۔ ہجوم نے اس کے گھر میں گھس کر توڑ پھوڑ کی۔

بعد ازاں پولیس نے اسے گرفتار کرلیا۔ جنوری، 2009میں اس پر لگا الزام بے بنیاد ثابت ہوا اور اسے رہا کردیا گیا۔

**

مئی میں، پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) اسلام آباد کے نرسنگ اسکول کو بند کرکے سات رکنی عملے کو معطل کردیا گیا۔ ان پر جامعہ حفصہ کی طالبات نے ایک اسلامی پوسٹر کے تقدس کی پامالی کا الزام لگایا تھا۔

محمد عمران کو مبینہ طور پر قرآن کا نسخہ نذر آتش کرنے کے الزام میں فیصل آباد سے گرفتار کیا گیا۔ تین دن تک تشدد کرنے کے بعد اسے قیدِ تنہائی میں ڈال دیا گیا۔

2008

احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے الطاف حسین کو مبینہ طور پر قرآنِ پاک کا نسخہ نذر آتش کرنے کے الزام میں، خانیوال کی تحصیل کبیروالا سے گرفتار کیا گیا۔

**

اپریل میں، پچیس سالہ جگدیش کمار کو کراچی کی ایک فیکٹری میں کام کے دوران اس کے مسلمان کارکن ساتھیوں نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس پر توہین آمیز کلمات کہنے کا الزام لگایا گیا تھا۔

2009

پنجاب پولیس نے احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ایک مزدور کو چار دیگر طالب علموں کے ساتھ گرفتار کیا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے سُنی مسلمانوں کی ایک مسجد کے واش روم کی دیوار پر (نعوذ باللہ)  نبی پاک کا نام لکھا تھا۔

**

اپریل میں، لاہور ہائیکورٹ نے فیصل آباد، پنجاب سے گرفتار کیے گئے دو معمرعیسائیوں کو توہینِ مذہب کے الزام سے بری کرنے کا حکم دیا۔

**

مذہبی تقدس کی مبینہ پامالی کی خبر کے بعد مشتعل ہجوم نے عیسائیوں کے پچھہتر گھروں کو نذرآتش کردیا۔ اس بلوے میں کم ازکم سات عیسائی باشندوں کو زندہ جلا دیا گیا۔

**

اگست 2009میں، مشتعل ہجوم نے ایک معمر خاتون کا گھر توڑ ڈالا۔ اس پر قرآنِ کے تقدس کی مبینہ پامالی کا الزام لگایا گیا تھا۔

2010

جولائی میں، لاہور ہائیکورٹ نے عدم ثبوت کی بنا پر ساٹھ سالہ بزرگ خاتون زیب النسا کو جیل سے رہا کرنے کا حکم دیا۔ وہ 1996 سے جیل میں تھیں۔ اُن پر قرآن کی بے حرمتی کا الزام تھا۔

**

آسیہ بی بی وہ پہلی عیسائی خاتون تھیں جنہیں توہینِ مذہب کے الزام میں پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ اس پر الزام لگا تھا کہ جہاں وہ کام کرتی تھی، وہاں منہ ماری کے دوران اس نے گستاخانہ کہے تھے۔

لاہور: پچیس دسمبر 2010 ، آسیہ بی بی کے حق میں احتجاج کیا جا رہا ہے۔— اےایف پی

آسیہ اب بھی جیل میں ہے۔ اس کے کیس نے عالمی برادری میں ہلچل مچادی تھی۔

2011

سلمان تاثیر۔— فائل فوٹو

جنوری 2011 میں آسیہ بی بی کی حمایت کرنے پر گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو اُنہی کے محافظ نے گولیاں مار کر قتل کردیا تھا۔

**

لاہور: شھباز بھٹی کے قتل کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی جا رہی ہے۔— اے پی

مارچ میں، اقلیتی امور کے وفاقی وزیر شہباز بھٹی کو قتل کردیا گیا۔

**

فیصل آباد کے اسکول ٹیچر شاہد ندیم پر قرآن کے اوراق شہید کرنے کا مبینہ الزام لگایا گیا۔

2012

جولائی میں بھاولپورکے قریب ایک مشتعل ہجوم نے ذہنی پسماندہ شخص کو مبینہ توہینِ مذہب کے الزام میں زندہ جلادیا۔

 مشتعل ہجوم نے اسے پولیس تھانے سے، جہاں وہ قرآن کے اوراق نذر آتش کرنے کے الزام میں قید کیا گیا تھا، پکڑ کر باہر نکالا اور تیل چھڑک کر زندہ جلادیا۔

**

اسلام آباد کے ایک نواحی گاؤں سے رمشا مسیح نامی عیسائی بچی کو پولیس نے توہینِ مذہب کے الزام میں گرفتار کیا۔ اس پر، مبینہ طور پراوراقِ مقدسہ نذر آتش کرنے کا الزام تھا۔

بعد ازاں، ایک مقامی عالمِ دین حافظ محمد چشتی کو گرفتار کیا۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے رمشا مسیح کو پھنسانے کے لیے راکھ والے شاپنگ بیگ میں اوراقِ مقدسہ شامل کیے تھے۔

پولیس نے عبوری چالان عدالت میں پیش کیا، جس میں کہا گیا کہ مسیحی بچی کے خلاف اوراقِ مقدسہ کی بے حرمتی کرنے کے کوئی شواہد یا ثبوت نہیں ملے۔

رمشا کو ستمبر میں ایک عدالت نے ضمانت دے دی، جس کے بعد سے وہ منظر سے غائب ہے۔ عالمِ دین جیل میں ہے اورمقدمہ زیرِ سماعت ہے۔

اقلیتیوں کے مسئلے پر ڈان اخبار کا اداریہ پڑھنے کے لیے کلک کریں

مرتبہ: تابندہ صدیقی، ڈان ڈاٹ کام

ترجمہ: مختار آزاد،اُردو ڈان ڈاٹ کام

تبصرے (0) بند ہیں