ونی کی سماعت جاری ہے- فائل فوٹو

کوئٹہ: سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں ڈیرہ بگٹی ونی کیس کی سماعت شروع ہوگئی۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، جسٹس خلجی عارف حسین اور جسٹس جواد ایس خواجہ پر مشتمل تین رکنی بنچ نے سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں کیس کی سماعت کر رہا ہے۔

جسٹس خواجہ کا کہنا تھا کہ جب تک لوگ سامنے نہیں آتے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

آج سماعت کے شروع میں چیف جسٹس نے طارق مسوربگٹی کے کزن سرفراز بگٹی سے ثبوتوں کے بارے میں دریافت کیا جو انہوں نے پیش کرنے کو کہا تھا۔

سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ ایک ماہ پرانا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ جرگےمیں شریک قبائلی عمائدین کےنام بھی بتاسکتے ہیں۔

تاہم ایڈوکیٹ جنرل امان اللہ کنڈھانی کا کہنا تھا کہ ابھی تک ایسا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا۔

ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان نے کہا کہ شواہد نہ ہونے کی بنیاد پر اس کیس کوختم کیا جائے۔

سپریم کورٹ نے اس کے جواب میں کہا کہ کیس ختم نہیں کرسکتے اور تفتیش کرنی ہوگی۔

سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ بچیوں کا عدالت میں پیش کیا جائے۔

رپورٹوں کے مطابق پانچ روز قبل بکر میں مبینہ طور پر رکن اسمبلی طارق مسوری بگٹی کی سربراہی میں ایک جرگے کا انعقاد ہوا تھا اور خونی تنازعے کے تصفیے کیلیے تیرہ لڑکیوں کو ونی کردیا تھا۔

اس واقعے کے منظر عام پر آنے کے بعد سپریم کورٹ نے اس واقعے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے طارق مسوری کو عدالت میں طلب کیا تھا۔

تاہم طارق مسوری نے گزشتہ روز ہونے والی سماعت میں عدالت کو بتایا تھا کہ جرگہ ان کی سربراہی میں نہیں ہوا اور وہ اس وقت ملتان میں تھے۔

دوسری جانب عدالت میں ڈپٹی کمشنرڈیرہ بگٹی کا کہنا تھا کہ بچیوں کو لانے کے لیے دو ہیلی کاپٹر ڈیرہ بگٹی بھیج دیے ہیں۔

ونی ایک رسم ہے جس میں ناراض پارٹی کو تنازعہ حل کرنے لیئے لڑکیاں شادیوں کے لیئے دے دی جاتیں ہیں۔ یہ رسم برسوں سے صوبہ خیبر پختونخواہ صوبہ بلوچستان اور سندھ کے کچھ حصوں میں مختلف ناموں سے موجود ہیں۔

اینٹی خواتین پریکٹس کی روک تھام کے لیئے سن دو ہزار گیارہ میں ایک ایکٹ بنایا گیا تھا جس نے اس رسم کو جرم قرار دیا تھا۔

اس ایکٹ کے مطابق ‘کوئی بھی آدمی بدلہ صلح، ونی، سوارا یا کسی دوسری رسم یا پریکٹس کے تحت چاہے وہ کسی نام سے بھی ہو، کسی سول تنازعہ کو حل کرنے کے لیئے کسی بھی لڑکی کو شادی کے لیئے دے گا یا اسے شادی پر مجبور کرے گا، اسے قید کی سزا دی جائے گی جو سات سال تک ہوسکتی ہے لیکن تین سال سے کم نہیں ہوسکتی اور اس کے ساتھ ساتھ اس پر پانچ لاکھ جرمانہ بھی ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں