السٹریشن – خدا بخش ابڑو

ووٹر بے چارہ آجکل پھر توجہ کا مرکز بنتا جارہا  ہے۔ اسے گھیرنے اور بہلا پھسلا کر اس کا ووٹ ہتھیانے کی نئی نئی تراکیب سوچی جارہی ہیں۔

سیاستدان جنہوں نے ساڑھے چار سال سے اس سے آنکھیں پھیری ہوئی تھیں۔ اس کی طرف مڑ کے دیکھنے کے لیے تیار بھی نہیں تھے۔ اس  کے دیئےہوئے ووٹ کی پرچی پراتراتے پھر رہے تھے۔ مستی اور موج اڑا رہے تھے۔ اور اس کے ووٹ کے بدلے ملک کے اصلی تے وڈے اہل اقتدار سے اپنی مرضی کے مطالبات منواکراپنے لیےتھوڑی سی آسانیاں اور ووٹروں کے لیے اور بھی مشکلات میں اضافے کرتے کرتے اب پھر واپس اسی منزل پر پہونچنے کو ہیں جہاں سے سفر شروع کیا تھا۔

کتنا لمبا سفر طے کیا ہے  کہ خود کو بھی یقین نہیں آ رہا۔ کیا کیا رکاوٹیں نہیں آئیں۔ لے دے کے کرسی بچاتے رہے۔ لیکن عوام جس کے نام پر ان عیاشیوں کے اہل بنتے ہیں، اس کو تو اتنا پیچھے دھکیل دیا ہے کے اس تک پہونچنے کے لیے سیڑھیاں تلاش کی جارہی ہیں۔

وقت ہے کہ ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے اور فیصلے کرنے کے لیے ایک ہی شاطر دماغ رہ گیا ہے، جس نے لے دے کے اب تک تو سب کو جوڑ کے رکھا ہوا تھا۔  لیکن اب سب کو اپنی اپنی فکر پڑی ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ جو کچھ کمالیا، کھا کھپا لیا اب پھر عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے کچھ تو نیا کرنا پڑے گا۔ سو سب نئے نئے پینترے بدل رہے ہیں۔

جیسے نئے بجٹ کے آنے سے دو تین ماہ پہلے سارے ترقیاتی اسکیموں کے فنڈ ریلیز ہونا شروع ہوجاتے ہیں، سارے ترقیاتی کام جو آٹھ نو ماہ تک بند پڑے ہوتے ہیں وہ ایک دم سے شروع ہوجاتے ہیں، ہر طرف سڑکیں کھد جاتی ہیں اور جہاں پہلے بجلی کا کھمبا دکھائی نہیں دیتا   تھا، وہاں بجلی کے چمکنے کے واقعات ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔

ایسے اب بھی نئے نئے واقعات وجود میں آرہے ہیں۔ نئے نئے بل پاس ہورہے ہیں۔ اپنی اپنی آسانی کے لیے علاقے بٹ رہے ہیں، دلوں اور دماغوں کا بٹوارہ تو اہلِ اقتدار کب سے کرتے آرہے ہیں۔ لیکن اب کی بار کچھ بڑا ہی پروگرام لگتا ہے۔ کیونکہ  اہلِ اقتدار کو ووٹ بٹا ہوا چاہیئے۔ اور اب کی بار جو کھچڑی پکے گی، اسکے لیے تو لائینیں لگیں گی۔

ساڑھے چار سال سے جو کام نہیں کرپائے تو اس میں ان معصوموں کا کیا قصور۔  آپ کو تو معلوم ہے اسٹیبلشمنٹ اور عدالتوں نے سانس ہی لینے نہیں دیا تو  بے چارےکام کہاں سے کرتے۔ اوپر سے  انکے اپنے خرچے ہی پورے نہیں ہو رہے تھے تو قوم اور ملک پر کیا خرچ کرتے۔

سب سے پہلے تو  انکےاتحادی ہیں، انہیں راضی رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔ روز نئی نئی فرمائشیں پوری کرنی پڑجاتی تھیں۔ تو یہ معصوم قوم اورملک کو کیسے خوش رکھتے۔ باقی رہاعوام کا ووٹ وہ  تو اب بھی بقول انکے انہی کی جیب میں ہے۔

السٹریشن – خدا بخش ابڑو

شریف برادران جو جاگ پنجابی جاگ  کے علمبردار تھے، کنفیڈریشن کے دعویدار وں میں مدغم ہوگئے ہیں۔

سندھ کے قوم پرست جن کی تقاریر پنجاب سے شروع ہوکر پنجاب پر ختم ہوتی تھیں اور کالا باغ ڈیم تو انکی لاشوں پر بننا تھا، وہ آج شریف برادران سے امیدیں لگا بیٹھے ہیں کہ وہی انہیں اقتدار کے ایوانوں تک پہونچائیں گے۔

اے این پی  جو آج تک ترقی پسندی کی دعویدار تھی اور طالبان اور القاعدہ کے خلاف لڑتے لڑتے کتنی جانیں گنواچکی ہے۔ اسکے وزیر ان کے لیے انعام و اکرام کے اعلان کر رہے ہیں اور اے این پی ہے کہ ایسی چپ سادھ لی ہے کہ جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہیں۔

ق لیگ جو پہلے قاتل لیگ کہلاتی تھی اب کی بار قابل لیگ کہلائے گی اور پی پی کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ دیکر ووٹ مانگے گی۔

خان صاحب بھی لگے ہوئے ہیں جمع تفریق میں، اب تو شیدا ٹلی بھی انکے حلقہ احباب میں شامل ہوچکے اورلاہورکے جلسے نے انکے نمبروں میں اور بھی اضافہ کردیا ہے۔ دیکھیں وزیرستان مارچ خان صاحب کی قسمت کے اور کتنے دروازے کھولتا ہے۔

ج اور ف لیگ جو ہمیشہ سے اہلِ اقتدار کے بل بوتے پر اقتدار میں رہتی آئی ہیں اور مشرف  کے دس سال میں بھی بھائی صاحب کے ساتھ ہی اقتدار کے مزے لوٹے ہیں  اور ساڑھے  چارسال  سےسندھ کے اقتدار کا حصہ بھی رہی ہیں ،آج حزب اختلاف کا چوغہ پہن کر قوم پرستوں کے ہیرو بننے جا رہی ہیں۔

ادھر دو یار، جو ہیں تو دو لیکن دکھائی ہمیشہ ایک ہی دیتے ہیں۔  انکے درمیان چوہے بلی کا کھیل جاری رہتا ہے، کبھی وہ بھاری تو کبھی یہ بھاری۔  لیکن لگتا ہے اب کی باربندر بانٹ ایسی ہوئی ہے کے جو بھاری کہلاتے تھے وہی اس دفعہ گھاٹے میں رہیں گے۔

جو اب  فائدے میں ہے وہ ہمیشہ فائدے میں ہی رہتا ہے اور بعد میں بھی فائدے میں ہی رہے گا کہ اسکے بنانے والے نے اس میں ایسی بات رکھدی ہے کہ اسکے بغیر  کوئی بھی اقتدار تک نہیں پہونچ سکتا،نا ہی میاں صاحب ،ناہی خانصاحب  ناہی قوم پرست۔ جو بھی راستہ اقتدار کو جاتا ہے  وہ لندن اور پنڈی سے ہوکر ہی گذرتا ہے۔

السٹریشن – خدا بخش ابڑو

اور ویسے بھی بھائی صاحب تو ہیں ہر فن مولا، ایک ہی وقت میں رلا بھی سکتے ہیں تو ہنسا بھی سکتے ہیں۔

 جب چاہیں پاکستانی بن جائیں، عافیہ بہن کے لیے ریلی نکلوالیں۔  قوم پرست،ترقی پسند، لبرل بھی یہی ہیں تو سیکیولر بھی، کبھی شیعہ تو کبھی سنی۔

عورتوں کے حقوق ہوں یا انسانی حقوق سب کچھ ان کی پٹاری میں موجود رہتے ہیں، جس چیز  کا جووقت مقرر ہوتا ہے اسی لمحے وہی  چیز باہر نکال لیتے ہیں۔

ادھر مذہبی جماعتیں بھی لاکھ اختلافات کے با وجود، کہیں نا کہیں مل کر ایک ہوجاتی ہیں، صرف اشارہ ملے اور ڈور ہلے تو دیکھیں گے کہ سب ساتھ ساتھ ہیں۔

پارٹیوں کے پاس اب تک نا کوئی پروگرام ہے نا چارٹر، سب مارچ کی طرف مارچ پر ہیں، کوئی امن مارچ نکال رہا ہے تو کوئی وزیرستان مارچ، مذہبی جماعتوں کو جب تک کوئی اور اشو ملے، فی الحال وہ بھی عشقِ رسول  میں مارچ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ووٹر تو ووٹ پہلے بھی دھونس اور دھاندلی سے دے دیتا تھا ۔ چاہے شہر میں رہتا ہو کہ گاؤں میں۔ ادھر گاؤں میں بھی وڈیرہ بیٹھا تھا تو ادھر شہروں میں بھی شہری وڈیرے ہیں۔  بس حکم کی دیر ہے۔

ویسے تو ووٹ قومیت، برادری، قبیلے یا فرقوں کی بنیاد پرہی پڑینگے۔ نئے نئے نعرے ایجاد ہورہے ہیں، لیکن ان میں مہنگائی، غربت،  بیروزگاری، تعلیم اور صحت کا  کوئی ذکرنہیں۔ اہلِ اقتدار نے ابھی سے بٹوارے شروع کردیئے ہیں۔ لوگوں کو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنایا جا رہا ہے۔ دیکھیں کہاں  تک لے جاتے ہیں یہ قوم کے رکھوالے۔ بندوق ووٹر کے کندھے پر رکھ کر چلاتے ہیں کہ خود ہی چلانے کا پروگرام ہے۔


وژیول آرٹس میں مہارت رکھنے والے خدا بخش ابڑو بنیادی طور پر ایک سماجی کارکن ہیں۔ ان کے دلچسپی کے موضوعات انسانی حقوق سے لیکر آمرانہ حکومتوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ ڈان میں بطور الیسٹریٹر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں