پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم، بالخصوص تنازعات زدہ علاقوں کے حوالے سے، آج ہسپتال کے بستر پر لیٹی ایک بچی اس کا استعارہ ہے، جس پر طالبان نے بڑی ڈھٹائی سے حملہ کیا تھا۔

ملالہ یوسف زئی کی طرح پاکستان کی کروڑوں بچیوں کو علم کے حصول پر عائد سخت پابندیوں کا سامنا ہے۔

اگر اعداد و شمار کے حوالے سے دیکھیں تو یہ مایوس کن حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس ملک میں ڈھائی کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے ہیں۔ یہ تعداد دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر آتی ہے۔

لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے دیکھیں تو صورتِ حال اس سے بھی زیادہ تاریک ہے۔

حال ہی میں جاری ہونے والے 'ایجوکیشن فار آل گلوبل مانیٹرنگ رپورٹ' کے مطابق اسکول نہ جانے والے بچوں کی کُل تعداد کا دو تہائی بچیوں پر مشتمل ہے۔

اس حوالے سے دنیا کےسولہ ممالک کی کارکردگی بدتر ہے۔ رپورٹ سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اس معاملے کو حل کرنے کے لیے ہماری کوششوں کی رفتار خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہے۔

اگرچہ پاکستان میں اسکول نہ جانے والی بچیوں کی تعداد میں سولہ فیصد تک کمی لائی گئی ہے تاہم ہندوستان، نیپال اور بنگلہ دیش اسی مدت کے دوران، اس تعداد میں پچاس فیصد تک کی کمی لائے ہیں۔

دیگر مطالعوں سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اسکول جانے والے انسٹھ فیصد لڑکوں کے مقابلے میں صرف انتالیس فیصد لڑکیاں ہی اپنی پرائمری کی تعلیم مکمل کرپاتی ہیں۔

ساتھ ہی مختلف وجوہات کی بنا پر لڑکیوں کے لیے اپنی تعلیم جاری رکھنا بھی مشکل ہوتا ہے۔

ایک بات یہ بھی ہے کہ لڑکیوں کے لیے سیکنڈری اسکولوں کی تعداد ناکافی اور ان تک رسائی آسان نہیں ہے۔ ان کے آگے نہ پڑھنے کا ایک یہ بھی حقیقی سبب ہے۔

عام طور پر اسکولوں میں بنیادی سہولتوں، جیسے پینے کا پانی اور باتھ روم تک کا فقدان ہوتا ہے۔ یہاں عمارت اور چاردیواری کی بات نہیں کررہے، حالانکہ پاکستان جیسے قدامت پسند معاشرے میں لڑکیوں کے اسکول کے لیے یہ نہایت لازمی شے ہے۔

یہ بھی لڑکیوں کے نہ پڑھنے اور بڑی تعداد میں اسکول سے دور رہنے کی وجوہات میں سے ہیں۔

ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہمارے روایتی معاشرے میں لڑکیوں سے متعلق ایک خاص قسم کی ذہنیت موجود ہے۔ اس کا بنیادی کردار ایک بیوی اور ماں کا ہے، جس میں کم از کم تعلیم، بنیادی ضروریات سے باہر کی غیر ضروری شے سمجھی جاتی ہے۔

صرف یہی کافی نہیں، گزشتہ تین سالوں سے لگاتار آنے والے سیلابوں نے بھی اسکولوں میں بچوں کے داخلوں پر سنگین اثرات مرتب کیے ہیں۔

اگرچہ فطرت کے غصے پر تو قابو نہیں لیکن ملک کے شمال مغرب میں شدت پسندوں نے بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم اور ان کے اسکولوں کو اپنے غیض و غضب کا نشانہ بنایا ہے۔

شدت پسندوں نے ان اسکولوں کی بہت بڑی تعداد کو ملیا میٹ کردیا ہے، جہاں لڑکیوں کو تعلیم دی جاتی تھی۔

مثال کے طور پر شدت پسندی کے ہاتھوں بدترین متاثرہ خیبر پختون خواہ کے مالا کنڈ ڈویژن میں شدت پسندوں نے ایک سو چونسٹھ اسکولوں کی عمارتوں کو مکمل طور پر تباہ کیا۔ ان میں سے ایک سو چار اسکول لڑکیوں کے لیے مخصوص تھے۔

جاری سیکورٹی خطرات اور افسرانہ تاخیر کا مطلب یہ ہے کہ تباہ ہونے والے ان اسکولوں کی دوبارہ تعمیر یا تو بالکل بھی نہیں یا پھر بہت کم تعداد میں ہوپائے گی۔

تعلیم کو پسِ پشت نہیں ڈالا جاسکتا۔ تعلیم کے ضمن میںحکومت کو ہر حال میں اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہوں گی۔ خاص طور پر تعلیم کے لیے صنفی برابری نہایت سنجیدہ معاملہ ہے۔ اسی میں پاکستان کی طویل المعیاد بہتری موجود ہے۔

بدقسمتی سے، جیسا کہ اب ہے، لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ اسی طرح توازن کے درمیان رہے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں