کراچی رجسٹری- پی پی آئی فوٹو

کراچی: سپریم کورٹ نے کراچی میں بدامنی کی بڑی وجہ غیرقانونی تارکین وطن کی موجودگی کو قرار دیا ہے۔

عدالت عظمٰی کے پانچ رکنی بینچ جس کی صدارت جسٹس انور ظہیر جمالی  کررہے ہیں  کراچی بدامنی کیس کی سماعت کی۔ اس بنچ میں جسٹس خلجی عارف حسین، جسٹس سرمد جلال عثمانی، جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس گلزار احمد شامل تھے۔

کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے کراچی آپریشن میں حصہ لینے والے پولیس افسران و اہلکاروں کے قتل ہونے والوں کو معاوضہ نا دینے پر برہمی کا اظہار کرتے  ہوئے کہا کہ ان کی خدمات کو فراموش نہیں کرناچاہئے۔

کراچی بدامنی کیس کے دوران عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا  ہے کہ زمینوں پرقبضے اور غیر قانونی تارکین وطن کی بڑھتی ہوئی آبادی شہر میں بدامنی کی بڑی وجہ ہے جبکہ حکومت اب تک اس معاملے میں کوئی پالیسی وضح نہیں کرسکی ہے۔

عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ زمینوں پر قبضہ اور تجاوزات شہر  میں بد امنی کا اہم سبب ہے۔

عدالت نے چیف سیکریٹری سندھ، ڈائریکٹر ماسٹر پلان کے ایم سی اورسینئرممبر بورڈ آف ریونیو اورڈائریکٹر سروے کو توہین عدالت کا شوکازجاری کردیئے ہیں۔

عدالت کا کہنا تھا کہ سات سال قبل عدالت  نے زمینوں کے سروے کے متعلق حکم جاری کیا تھا مگر تاحال اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔

عدالت نے کہا کہ چار بڑے افسران چیف سیکریٹری سندھ، ڈائریکٹر ماسٹر پلان کے ایم سی کو نوٹس سندھ ہائیکورٹ کے حکم کے باوجود زمینوں کا سروے نہ کرنے پرجاری کیا گیا ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت سے استدعا کی کہ چیف سیکریٹری کو شوکاز نوٹس جاری نہ کرے۔

اس کے علاوہ عدالت نے بیماری کے باعث رخصت پرجانے والے سینئرممبر بورڈ آف ریونیو کو آئندہ سماعت پر طلب کرلیا ہے۔

عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کو بورڈ آف ریونیو کے تمام ممبران کی فہرست فراہم کرنے کی ہدایت کی۔

دوران سماعت کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کےایم سی ) نے رپورٹ پیش کی کہ کراچی ڈویژن کے پانچ اضلاع اور اٹھارہ ٹاوٴنز ہیں ،تین ہزار پانچ اسکوائر کلومیٹر کا رقبہ ہے ، چودہ سو مربع کلو میٹر آباد ہے ۔

رپورٹ پر جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آپ نے شہریوں کے سکون اور تفریح کی جگہیں فروخت کردیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کے چلنے پھرنے اور بچوں کے کھیلنے کی جگہیں بھی نہیں چھوڑیں۔

اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ زمینوں کے اصل مالک غائب ہیں  اور رجسٹرز کے کھاتے میں ایک بھی اصل مالک نہیں ہے ۔

دوران سماعت الیکشن کمیشن سندھ کا عدالت میں موقف تھا کہ آئین کے مطابق جب تک مردم شماری نہ ہو حلقہ بندیاں نہیں ہوسکتیں،مردم شماری ہونے کے بعد الیکشن کمیشن حلقہ بندیاں کرسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں اب تک مردم شماری نہیں ہوسکی اور اوروفاق کی جانب سے رپورٹ جاری نہیں ہوئی۔

آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں کمی آئی ہے۔

تین روز تک جاری رہنے کے بعد عدالت نے سماعت اکیتس اکتوبر تک کے لئے ملتوی کردی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں