دو ہزار نو میں حنا خان ایک پریس کانفرنس سے خطاب کررہی ہیں۔ فائل تصویر

اسلام آباد: کچھ دنوں پہلے حنا نامی لڑکی کی ایک خبر شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کہ اسے بھی ملالئے کی طرح سوات میں موجود عسکریت پسندوں سے خطرہ لاحق ہے۔

لیکن حال ہی میں اس کہانی نے نیا موڑ لیا جب حنا کے والد رائت اللہ خان کے بارے میں اس بات کا چلا کہ وہ فراڈ اور جھوٹے ہیں۔

پولیس نے ان کے اس کہانی کو ماننے سے انکار کیا ہے۔

پولیس ذرائع نے ڈان کو جمعرات کے روز بتایا کہ رائت اللہ خان کے خلاف چار کیس فراڈ کے حوالے سے رجسٹرڈ ہیں جبکہ دو کیسوں میں انہیں بیل مل چکی ہے۔

سوات کے رہائشی رائت اللہ خان اسلام آباد سن دو ہزار نو میں سوات میں ملٹری آپریشن شروع ہونے سے پہلے آئے تھے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ دو ہزار نو سے ہی انہوں نے فراڈ کے کاموں میں حصہ لینا شروع کیا۔

لیکن پولیس نے اس بارے میں تفتیش اس وقت شروع کی وزیر داخلہ رحمان ملک کو رائت اللہ خان کی طرف تیرہ اکتوبر کو ایک درخواست موصول ہوئی جس کے مطابق رائت اللہ خان کے خاندان کو عسکریت پسندوں سے خطرہ لاحق ہے۔

اس درخواست کا نوٹس لیتے ہوئے رحمان ملک نے اسلام آباد پولیس چیف کو اس معاملے کی تفتیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔

تحقیقات سے یہ پتہ چلا کہ رائت اللہ خان کے خلاف شالیمار اور رمنا پولیس اسٹیشن میں چار ایف آئی آر زیر التوا ہیں جو گزشتہ تین سال کے دوران ان کی مبینہ طور پر متاثرین کی طرف سے دائر کی گئی تھیں۔

پولیس ذرائع کے مطابق ان متاثرین کا کہنا ہے کہ رائت اللہ نے انہیں بوگس چیک کی صورت میں رقم واپس کی تھی اور اس طرح فراڈ کا مرتکب ہوا۔

اس کے علاوہ رحمان ملک کو خط لکھنے کے تین دن بعد ہی رائت اللہ نے ایک متاثر شخص محمد یونس کو 100،000 روپے ادا کیئے اور بیل حاصل کی۔

حکم داد وہ پہلے متاثر شخص تھے جو پولیس کے پاس گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے سات اکتوبر کو شالیمار پولیس اسٹیشن میں ایف آئی ار درج کرائی تھی جس کے مطابق رائت اللہ خان نے ان سے کوہستان کے علاقے میں جو کہ سوات کے قریب واقع ہے، ان سے ان کے بھائی کی جاب کرانے کے لیئے 500،000 روپے مانگے تھے۔

حکم داد کا کہنا تھا کہ نہ ہی رائت اللہ جاب کرانے میں کامیاب ہوئے بلکہ رقم واپس کرنے کے لیئے جو چیک انہوں نے دیئے وہ سب باؤنس ہوگئے۔

دریں اثناء رمنی پولیس نے بھی ان کے خلاف دو شکایات کا اندراج کیا ہے – ایک ستمبر دو ہزار گیارہ میں جب انہیں چوری کی ہوئی گاڑی چلاتے ہوئے پکڑا گیا تھا اور دوسری جب اپریل دو ہزار بارہ کو ولی محمد انجم نے ان پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے ان سے 310،000 روپے قرضہ لیا تھا اور دو دفعہ بوگس چیک اس قرضے کو ادا کرنے کے لیئے دیئے۔

انجم نے ڈان کو بتایا کہ پولیس کے تفتیش کاروں نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ یہ معاملہ عدالت کے باہر ہی حل کرلیں۔

پولیس ذرائع کے مطابق رائت اللہ کہانیاں گھڑنے میں ماہر ہیں۔

رحمان ملک کو بھیجی جانی والی درخواست میں رائت اللہ نے دعوی کیا تھا کہ انہیں نے سول اور ملٹری اتھارٹیوں کی سوات اور مالاکنڈ میں امن نافض کرنے کے لیئے اور خواتین اور بچوں کے حقوق کادفاع کرنے میں مدد کی تھی۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ انہوں نے دو ہزار سات میں حالات کو دیکھتے ہوئے اسلام آباد منتقل ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔

قبل ازیں حنا کے والد رائت اللہ خان نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ رواں سال اگست میں ان کی بیوی فرحت کو، جو خود بھی ایک سماجی کارکن ہیں، دھکمی آمیز فون کالز ملنا شروع ہو گئی تھی۔

رایت اللہ  کا کہنا تھا کہ انہیں ماضی میں بھی ایسی دھمکیاں ملتی رہی ہیں تاہم اس مرتبہ وہ بہت زیادہ پریشان ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ کچھ روز قبل ان کے گھر کے دروازے پر سرخ رنگ کا نشان لگا ہوا تھا، انہوں نے یہ سوچ کر اسے مٹا دیا کہ یہ کسی کی شرارت ہو گی تاہم اگلے روز دوبارہ دروازے پر سرخ نشان سے وہ خوف زدہ ہو گئے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اگلے ہی روز ان کو ایک فون کال موصول ہوئی جس میں کہا گیا کہ ملالئے کے بعد ان کا اگلا ہدف حنا کا ہے، اس کال کے بعد سے پورا خاندان انتہائی خوف زدہ ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں