بلاول بھٹو زرداری پیرس میں اپنے والد صدر آصف علی زرداری کے ہمراہ۔— اے ایف پی

اسلام آباد: تقریباً تین دہایوں پہلے ذوالفقارعلی بھٹو نے اپنی شخصیت اور سیاست کا جو سحر پیدا کیا تھا وہ اب بھی قائم نظر آتا ہے۔

آج بھٹو خاندان کے افراد چاہے ایک دوسرے سے دور ہوں لیکن آئندہ انتخابات میں بھٹو نام کو کیش کرنے کی ہر ممکن کوششیں جاری ہیں۔

حکمران جماعت کے ایک سینیئر رہنما نے ڈان سے گفتگو میں بتایا کہ بلاول بھٹو زرداری اگلے سال ستمبر میں انتخابات میں حصہ لینے کی کم سے کم یعنی پچیس سال کے ہو جائیں گے، لیکن ان کے والد صدر آصف علی زرداری اُنہیں مئی تک آئندہ عام انتخابات کے موقع پر باقاعدہ طور پر سیاسی میدان میں اتارنا چاہتے ہیں۔

سندھ سے منتخب ہونے والے پی پی پی کے ایک رکنِ قومی اسمبلی نے دعوی کیا کہ جس طرح ہندوستان میں کانگریس جماعت گاندھی خاندان کی سربراہی کے بغیر الیکشن میں حصہ لینے کا تصور نہیں کر سکتی، بالکل اسی طرح پی پی پی کے رہنما بھی خود کو بھٹو خاندان سے الگ کرنے کا نہیں سوچ سکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ خواہ کسی کو پسند ہو یا نہیں، حقیقت یہ ہے کہ بلاول، آصفہ اور بختاور پی پی پی کے چہرے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پی پی پی بھٹوز کا دوسرا نام ہے اور بینظیر بھٹو کی اچانک موت کے بعد ان تینوں بچوں کے لیے ضروری تھا کہ وہ پارٹی کا جھنڈا تھامیں۔

'یہ ایک ایسا تعلق ہے جسے صدر زرداری بھی چیلنج نہیں کر سکتے۔ بھٹو خاندان کا کوئی بھی فرد انتخابی مہم کے دوران اپنی تقریر سے ووٹروں میں اضافی جوش بھر دیتا ہے۔ اور پارٹی یہ جوش ایسے وقت میں  گنوانے کو تیار نہیں جب انتخابات سر پر ہوں'۔

ان کا کہنا تھا کہ چونکہ بائیس سالہ بختاور کو سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں اور انیس سالہ آصفہ ابھی چوٹھی ہیں، ایسے میں پارٹی کے پاس بلاول کو سیاسی میدان میں اتارنے کے علاوہ اور کوئی دوسرا راستہ نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ بختاور اور آصفہ انتخابی مہم کے دوران منظرعام پر آتی رہیں گی لیکن مہم کا چہرہ بلاول ہی ہوں گے۔

اس حوالے سے پارٹی کے انتہائی مخلص رہنما بلاول کی نہ صرف سیاسی تربیت کر رہے ہیں بلکہ انہیں باقاعدہ طور پر پارٹی امور سے بھی آگاہ رکھا جا رہا ہے۔

دوسری جانب، تقریباً ایک سال سے بلاول کی سیاست میں گہری دلچسپی لینے سے ان پارٹی رہنماؤں کا کام کافی آسان ہو گیا ہے۔

پارٹی کے ایک انتہائی اہم رہنما نے ڈان کو بتایا کہ منگل کو ایوان صدر میں طالب علموں کے ایک گروپ کے سامنے بلاول کی تقریر لوگوں کی سوچ سے کہیں زیادہ سوچی سمجھی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ چار ہزار سے زائد الفاظ پر مشتمل اس تقریر میں ملک کو درپیش مقامی اور عالمی سطح کے تمام مسائل کا احاطہ کیا گیا تھا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے منتخب طالب علموں سے بلاول کی ملاقاتیں ان کے سیاسی کیریئر کا آغازہے۔

اسی وجہ سے بلاول ملک میں شدت پسندوں کے خلاف جاری جنگ اور چار سالہ دور حکومت میں پارٹی کی نام نہاد کامیابیوںکا ذکر کرتے ہیں۔

بلاول نے نواز شریف، عمران خان، جماعت اسلامی کے علاوہ انتخابات میں حصہ لینے والی تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر چلنے کا بھی عندیہ دیا ہے۔

اور توقعات کے عین مطابق، وہ ملک کی صورتحال میں بہتری لانے کے لیے اپنی مرحوم والدہ کے عزم اور وژن کی بھی بات کرتے ہیں۔

گزشتہ کچھ عرصے سے وہ ملک کو آزاد خیال اور تعلیم یافتہ بنانے کے حوالے سے  اپنی والدہ کی کوششوں کو ملالئے سے بھی جوڑتے ہیں۔

ایک اور رکن پارلیمنٹ نے ڈان کو بتایا کہ پاکستان میں خاندانی سیاست کی جڑہیں بہت گہری ہیں اور یہ صورتحال آنے والے وقتوں میں بھی برقرار نظر آتی ہے، جس سے نئے لوگوں کو سیاسی میدان میں آنے اور خود کو منوانے کے موقع نہیں ملیں گے۔

انہوں نے پوچھا کہ کیا مسلم لیگ ن شریف بھائیوں کے بغیر انتخابات میں حصہ لینے کا سوچ سکتی ہے؟ اور یہ کہ کیا عوامی نیشنل پارٹی کی بھاگ دوڑ ولی خاندان کے علاوہ کسی اور کے ہاتھوں میں جا سکتی ہے؟

انہوں نے مزید کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ اگلے دس بیس سالوں میں ان سیاسی جماعتوں کا رویہ کیا ہو گا لیکن فی الحال سب کچھ مخصوص خاندانوں کے گرد گھوم رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ سیاسی خاندان اپنے ارگرد موجود لوگوں سے کچھ بھی بانٹنے پر آمادہ نہیں ۔

تبصرے (1) بند ہیں

Salman Ahmed Nov 24, 2012 02:11am
Reigning political process is important over the running pattern of political process in Pakistan. Political maturity may alter the attitude of the pattern. And maturity comes off practice only.