السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.
السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.

is blog ko Abro Sahab ki awaaz mein sunne ke liye play ka button click karen | اس بلاگ کو ابڑو صاحب کی آواز میں سننے کے لئے پلے کا بٹن کلک کریں  [soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/73347889" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]

جب سال آتا بھی دھماکوں کی گونج میں ہے تو پھر جاتا بھی دھماکوں کی ہی گونج میں ہے۔ ملک ہے کہ اپنے وجود میں آنے کے پہلے دن سے ہی خطرے میں گِھرا ہے اور جب سے حالتِ جنگ میں ہی ہے کہ اسی بہانے سے سب کی روزی روٹی بھی چل رہی ہے۔ اور فرمانے والے فرماتے ہیں کہ خطرہ بیرونی بھی ہے تو اندرونی بھی اور یہ بھی کہ دشمن کا بھی پتہ نہیں لگ رہا کہ کون ہے۔

موبائل فون بند کرنے کی رسم کا آغاز تو عید سے ہوا۔ اب نوبت جمعے تک پہنچ گئی ہے۔ اب جمعے کے جمعے موبائل فون بھی بند رہینگے۔ اور حالات اگر ایسے ہی رہے تو پانچ وقت کی نماز کے حساب سے موبائل سروس کی بندش کے اوقات پربھی سوچا جاسکتا ہے۔

اصل میں ان بے چاروں کو پوری اطلاع ہی نہیں ملتی کہ کہاں دھماکہ کرنے والے ہیں۔ بس ادھوری انفارمیشن ملتی ہے کہ بندے پہونچ گئے ہیں آجکل میں دھماکہ کرنے والے ہیں۔ آپ اپنی نفری تیار رکھیں اور چوکس ہو جائیں۔ ہیں تو یہ بھی دہشت گردوں کے سارے راستوں سے واقف۔ پہلے تو یو ٹیوب کو بند کرتے ہیں پھر موبائل سروس۔ ویسے ہونی تو ایمیل اور انٹرنیٹ پر بھی پابندی چاہیے، لیکن اس کے لیے ابھی سوچ بچار جاری ہے۔

باقی دھماکہ کرنے والے دھماکہ کر ہی جاتے ہیں اور فون کرکے اس کا ذمہ بھی لے لیتے ہیں۔ خود بھی شہید ہوکر اپنے جنت میں جانے کا بندوبست کرتے ہیں تو جن اپنے بھائیوں کو موت کی نیند سلاتے ہیں انہیں بھی شہادت کا رتبہ دلا دیتےہیں اور لگے ہاتھوں ان کے بھی جنت میں جانے کا بندوبست کردیتے ہیں۔ اور جن کی ان پر نظر رکھنے کی ذمّہ داری ہے۔ جو دہشت گردی سے نمٹنے کی تنخواہ لے رہے ہیں وہ بھی اپنے فرائض کی ادائیگی کرتے کرتے اگر اجل کا شکار ہوگئے تو ان کا بھی شہیدوں میں ہی شمار ہوتا ہے۔ شوقِ شہادت ہے کہ بڑھتا جا رہا ہے۔ لوگ ثواب کی خاطر مار بھی رہے ہیں تو مر بھی رہے ہیں۔

کوئی ملک بچانے نکلا ہوا ہے تو کسی نے جمہوریت کو بچانے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے۔ کوئی سندھ بچانے کے لیے نکل آیا ہے تو کوئی بلوچستان۔ جن کے پاس اختیار ہیں وہ بھی بے اختیار ہونے کا رونا رو رہے ہیں۔ حکومت میں بھی ہیں تو حکومت سے باہر بھی وہی ہیں۔ اور جو سدا سے باہر ہیں وہ سدا سے اندر بھی ہیں کہ ان کی ڈور تو ازل سے ان کے ہاتھ میں ہے جو اس ملک کے اصل والی وارث ہیں۔ جو جیسے چاہتے ہیں ویسے ہی ملک چلتا ہے۔ اگر ان کو یو ٹیوب پر اعتراض ہے تو آپ کون ہوتے ہیں یو ٹیوب کھولنے والے۔ سارے احکامات منٹوں میں واپس لے لیے جاتے ہیں۔

السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.
السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.

سو آجکل ڈور ہلنی شروع ہوئی ہے تو سب جو ایک دوسرے سے دور دکھائی دیتے تھے وہ ایک دوسرے کے قریب آنا شروع ہوگئے ہیں۔ انتخابات جب تک ہوں اس سے پہلے لکی پاکستانی سرکس کا آغاز ہوچکا ہے۔ نئے نئے تماشے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ کینیڈا والے کے سائے میں لندن والا پناہ لے رہاہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے پورا میڈیا شیخ الاسلام کے چرچے کر رہا ہے۔ لندن والے پیر، دفاعِ پاکستان اور کینیڈا پلٹ شیخ ایک ہی چھتری کے سائے میں آگئے ہیں۔ ادھرسندھ کے نئے ابھرنے والے ستارے سے شیدا ٹلی کی ملاقات کے بعد پیر صاحب نے بھی فرمایا ہے کے ان کو تو انتخابات ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔

سندھ میں جو نیا ستارہ ابھرنے والا تھا اس کے سائے میں جو قوم پرست، ترقی پسند اور طبقاتی جدوجہد کرنے والے، مذہبی جماعتوں سے ہاتھ میں ہاتھ دے کرسندھ کو بچانے کی جو نوید دے رہے تھے۔ آج اسی صوفیانہ سندھ میں اسلام کے نام پر بپھرے مجمعے نے ایک انسان کو سنگسار کردیا ہے اور ہمارے روشن خیال سندھی اب بھی سمجھتے ہیں کہ سندھی جو صوفیانہ مزاج اور روشن خیال لوگ ہیں وہ تو ایسا کر ہی نہیں سکتے۔ جب ڈور ہلانے پر ملاؤں اور پیروں سے ہاتھ میں ہاتھ ملاکر اپنے سارے نظریات اور سوچ کی نفی کریں گے تو شاید اس سے بھی زیادہ برا دیکھنے کو ملے۔ مذہبی جماعتیں توایک دن ان کے ساتھ کھڑی ہیں تو دوسرے دن اسلام بچانے کی کانفرنس بھی کر رہی ہیں۔ ان دونوں کے مفاد کہاں ملتے ہیں یہ تو وہی بہتر بتا سکتے ہیں۔

ادھر سندھ کے آسمان پر ایک اور ستارہ ابھرا ہے، وہی نعرے، وہی وعدے لیے۔ اُسی آواز اور ادا کے ساتھ ایک نوجوان کو میدان میں اتار دیا گیا ہے۔ وہی کہانی پھر وہیں سے شروع کی جا رہی ہے جہاں سے پانچ سال پہلے شروع ہوئی تھی۔ لوگ بچارے ہیں کہ ان کو نا ہی اپنے کانوں پر یقین آ رہا ہے نا ہی اپنی آنکھوں پر اور اگرکوئی چمک دکھائی بھی دی تو صرف باپ کی آنکھوں میں، خوشی کے مارے جس کی باچھیں اور بھی کِھل گئی تھیں۔

باقی سب گھاگھ سیاستدان جو شہیدوں کے نام پر پانچ سال سے اڑان میں تھے، پلتھی مار کر اسٹیج پر بیٹھے تھے اور اپنی پانچ سال کی کار گذاری بتانے کی ذمے داری بھی ایک نوجوان کے کندھوں پر ڈال کر خود آرام سے بیٹھ کر سننے کا فریضہ انجام دے رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اس کشتی کوپہلے جس شہید بیٹی کے ذریعے کنارے لگایا تھا اب ذمےداری اسی کے بیٹے پر ڈالدی ہے۔ کشتی پھر منجھدار میں ہے دیکھیں کہ کیسے کنارے لگتی ہے۔

عوام کے پاس تو کچھ بھی نہیں سوائے ووٹ کی طاقت کے، لیکن اس کی خاطر پورے ملک میں اُکھاڑ پچھاڑ ہو رہی ہے۔ سب اپنے اپنے کام سے لگ گئے ہیں۔ کوئی بغیر ووٹ کے کرسی کا خواب دیکھ رہاہے۔ جسے ووٹ ہتھیانے کا گُر آتا ہے وہ بھی بے یقینی میں ہے اور آسان طریقے ڈھونڈھ رہا ہے کہ کسی طرح بھی پھر وہی ٹھاٹھ قائم اور دائم رکھ سکے۔ جو اقتدار کے اصل مالک ہیں وہ بھی پچھلے پانچ سالوں سے سیاستدانوں کے ناز نخروں سے تنگ آگئے ہیں اور اپنی گھوٹ تہ نشہ تھیوے کے چکر میں ہیں اور عوام ہے کے لاکھوں کے جلسے کامیاب کرواکر بھی سی این جی کی لائنوں میں کھڑی ہے۔

نیا سال بھی گولیوں کی گونج میں آیا ہے۔ ہتھیار ہے جو گھر گھر سے گونج رہا ہے، کسی وڈیرے کے بیٹے کو یا شہری لونڈے کو کچھ ناگوار گذرے تو بُھون کے رکھ دیتا ہے۔ کوئی اسلام کے نام پر جان لے رہا ہے توکوئی ملک کی حفاظت کی خاطر ٹکڑے کر رہا ہے۔ اور اگر کسی کے پاس یہ سب بہانے نہیں تو غیرت کے مارے اپنی ماؤں ،بہنوں اور بیٹیوں کے درپے ہے! محافظ ہیں کہ اپنی ہی حفاظت میں پورے ہیں۔ اب تو انہوں نے بھی اپنی بے بسی اور بے خبری کا رونا رونا شروع کر دیا ہے۔

السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.
السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.

ہر مسئلے کا علاج صرف ایک ہی رہ گیا ہے کہ بند کردو! راستے بند کردو، گیس بند کردو! موبائل فون، یو ٹیوب، نیٹ، پڑھنا، لکھنا، سوچنا، موسیقی، رقص اور کچھ نا بن پائے تو سانس لینا بھی خلافِ قانون قرار دیدو۔ امن رہے گا یا شانتی رہے گی، یہ تو پابندی لگانے والوں کوبھی نہیں معلوم!


وژیول آرٹس میں مہارت رکھنے والے خدا بخش ابڑو بنیادی طور پر ایک سماجی کارکن ہیں۔ ان کے دلچسپی کے موضوعات انسانی حقوق سے لیکر آمرانہ حکومتوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ ڈان میں بطور الیسٹریٹر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں