sindh vadera vs vadera 670
فنکشنل لیگ، نواز لیگ اور قوم پرستوں پر مشتمل دس جماعتی اتحاد نے قومی کی 47 اور صوبائی کی 97 نشستوں پر اُمیدوار کھڑے کیے ہیں۔ نواز لیگ سندھ کے صدر غوث علی شاہ فنکشنل لیگ کے ایک تعزیتی اجلاس سے خطاب کررہے ہیں۔ —. فوٹو پی پی آئی

حالیہ انتخابی عمل سندھ میں کسی تبدیلی کا پیش خیمہ بنتا نظر نہیں آتا۔ پیپلز پارٹی ہو یا دس جماعتی اتحاد یا بشمول فنکشنل اور نواز لیگ ،سب کے پاس وڈیرے ہی انتخابی امیدوار ہیں، لہٰذا یہ انتخابات وڈیرہ بمقابلہ وڈیرہ  بن چکے ہیں۔

سندھ کے قوم پرستوں میں سے سوائے تین پارٹیوں سندھ ترقی پسند پارٹی، قومی عوامی تحریک اور سندھ یونائٹیڈ پارٹی کے باقی نصف درجن کے قریب پارٹیاں اور گروپ جس میں جیئے سندھ محاذ ، جیئے سندھ قومی محاذ کے دونوں دھڑے، جیئے سندھ متحدہ محاذ وغیرہ انتخابات سے باہر ہیں۔ لہٰذا یہ خواب کہ سندھ کے قوم پرست مین اسٹریم سیاست کا حصہ بن پائیں گے شرمندۂ تعبیر ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سندھ کے ادیبوں کا ایک گروپ سندھ کے نام پر دس جماعتی اتحاد کی ہی نہیں بلکہ بعض پیپلز پارٹی کے مخالف وڈیروں کی حمایت کر رہا ہے۔

انتخابات سیاسی کم اور ذاتی زیادہ ہوگئے ہیں۔ نہ سیاسی نعرہ موجود ہے اور نہ ہی سیاسی جماعتیں بطور جماعت کے۔ سندھ میں متبادل کے طور پر پیش کیے جانے والے دس جماعتی اتحاد نے بھی کوئی پروگرام یا منشور کا اعلان نہیں کیا۔ اصل میں یہ سیاسی اتحاد کم اور سیٹ ایڈجٹسمنٹ کا معاملہ زیادہ ہے۔

مختلف گروپس کی جانب سے کسی کی حمایت یا مخالفت کا پیمانہ بھی ذاتی تعلقات اور اثر رسوخ ہے۔ عمرکوٹ میں فنکشنل لیگ تحریک انصاف کے اُمیدوار شاہ محمود کی حمایت کررہی ہے جبکہ یہ جماعت مسلم لیگ نون کی اتحادی ہے۔ ارباب گروپ تھر میں شاہ محمود کے ساتھ مقابلے میں ہے۔ مگر اس حلقے میں وہ ملتان کے پیر کی حمایت کر رہا ہے۔

ایم کیو ایم نے بظاہر تو 127 نشستوں پر اُمیدوار کھڑے کیے ہیں۔ لیکن عملاً ایم کیو ایم اور اے این پی نے شہری علاقوں کراچی حیدرآباد اور میرپورخاص کو فوکس کیا ہے۔ متحدہ نے کراچی کی بیس میں سے سترہ قومی کی اور 42 صوبائی میں سے 35 صوبائی حلقوں کو فوکس کر رکھا ہے۔

پیپلز پارٹی کی توجہ ملیر اور لیاری پر مرکوز ہے۔

فنکشنل لیگ، نواز لیگ اور قوم پرستوں پر مشتمل دس جماعتی اتحاد نے قومی کی 47 اور صوبائی کی 97 نشستوں پر اُمیدوار کھڑے کیے ہیں۔

صرف  137 حلقوں میں پی پی اور متحدہ کے امیدوار دس جماعتی اتحاد کے مدمقابل ہونگے۔ دس فیصد حلقوں میں پارٹی کے ناراض اُمیدوار بھی کھڑے ہیں ۔

سابق حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں یعنی پی پی، ایم کیو ایم اور اے این پی اگرچہ بظاہر ایک دوسری کی حمایت نہیں کر رہی ہیں، تاہم ان جماعتوں نے 2008ء کے انتخابات کی پوزیشن کو تسلیم کرکے ایک دوسرے کے زیر اثر حلقے میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

دس جماعتی اتحاد نے قومی کے دس اور صوبائی کے 37 حلقے خالی چھوڑے ہیں۔ جن پر مخدوم شاہ محمود قریشی، شیرازی، اور لُند گروپ کے امیدوار ہیں۔

آزاد امیدوار طور انتخاب لڑنے والے صرف نام میں آزاد ہیں۔ ان کو دس جماعتی اتحاد یا پھر پی پی مخالف گروپس کی حمایت حاصل ہے۔

صوبے میں سیاسی طور پر پیپلز پارٹی کو سخت مخالفت کا سامنا ہے۔ یہ مخالفت فی الحال رائے عامّہ پر اثرانداز ہونے والے عناصر کر رہے ہیں۔ لیکن انتخاب کے حوالے سے پیپلز پارٹی نے کچھ کھویا بھی تو کچھ پایا بھی ہے۔ کیا کھویا کیا پایا؟ پی پی اپنی اس حکمت عملی میں کامیاب نظرآتی ہے کہ کوئی بھی اسمبلی ممبر بننے جیسا بااثر شخص پارٹی کے دائرے سے باہر نہ رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے نتیجے میں پارٹی کارکن ناراض ہوئے اور بعض جگہوں پر تنظیمی طور پر بھی پارٹی کو نقصان پہنچا۔

مہر، مزاری، ڈاہری، چانڈیو، لاڑکانہ کے اُنڑ کو پیپلز پارٹی نے اپنا بنایا۔ جبکہ ٹکٹ کے معاملے پر ٹھٹہ کے شیرازی، ملکانی اور گھوٹکی کے لُند گروپ پی پی سے دُور ہوئے۔

پیر آفتاب حسین شاہ جیلانی، سیف اللہ دھاریجو، غنی تالپور اور مظفر شجرہ کارنر ہوئے۔ عبدالواحد سومرو، زاہد بھرگڑی، میاں مٹھو، گل محمد جکھرانی، جام تماچی اُنڑ، پیر امجدشاہ جیلانی کو ٹکٹ نہیں ملی۔ لاڑکانہ کے عباسی برادران پیپلز پارٹی سے دور ہوگئے۔

بعض سیاسی خاندان کسی بھی پارٹی میں جگہ نہ حاصل کرسکے۔ ان میں عمرکوٹ کے پلی، میرپورخاص کے تالپور شامل ہیں۔

سندھ کے انتخابات کی سیاست میں آج بھی دو درجن سیاسی خاندان اور نصف درجن سجادہ نشین حاوی ہیں۔ دونوں بڑی جماعتوں نے وڈیروں کو اہمیت دینے میں ایک دوسرے سے مسابقت لے رہی تھیں، نتیجے میں نیا طبقہ کردار ادا کرنا چاہ رہا تھا، اس کو اسپیس ہی نہیں ملا۔ لہٰذا یہ انتخابات ماضی سے کوئی زیادہ مختلف نظر نہیں آتے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Gulshad Ahmed Apr 22, 2013 07:34am
Bazahir to waqae koe change nahe nazar arha.
murad pandrani Apr 23, 2013 10:55am
Sohail sahab ny haqeeqat sy parda uthaya hai.... 11 May ki election kuch halqon ko chorr kar baqi tamam halqon par rawayati wadery aik dosry ka muqabila karengy..