qurbani-290
تصویری خاکہ - خدا بخش ابڑو

قربانی کےبھی بہت سےمعنی ہیں اوربہت ساری قسمیں بھی ۔ قربانی دی بھی جاتی ہے تو قربانی لی بھی جاتی ہے۔ قربانی دینے والے اور قربانی لینے والے میں فرق صرف  دینے اور لینے کا ہے۔ جیسے روزانہ ٹی وی پر بتایا جاتا ہے کہ دینے والا ہاتھ، لینے والے ہاتھ سے افضل ہے۔ یہاں ذرا حساب الٹا ہے، یہاں قربانی لینے والا قربانی دینے والے سے افضل  ہوتا ہے۔

قربانی دینے والا اکثر غریب ، حال سے بیحال، جس کی قسمت میں پہلے سے ہی قربانی دینا لکھا ہوتا ہے اور قربانی لینے والا صحتمند، خوشحال نہ صرف اپنے لباس سے بلکہ اپنے رنگ ڈھنگ، اٹھنے بیٹھنے اور جسامت سے بھی خوشحال نظر آئے گا۔ ویسے قربانی لینے والے کے پیچھے قربانی دینے والوں کی  جتنی اکثریت ہوگی اسکو اتنا ہی معتبر سمجھا جاتا ہے اور جس کے ساتھ جتنے کم قربانی دینے والے ہونگے وہ اتنا ہی کم معتبر سمجھا جائے گا۔  سو آجکل قربانی لینے والوں کی پہلی کوشش یہی ہوتی ہے کہ جتنے بھی زیادہ قربانی دینے والے ساتھ ہوں تو اسکا اپنا مستقبل بھی اتنا ہی روشن ہوگا۔

ویسے  تو یہ مملکت خداد ِ پاکستان بھی قربانیوں کا ہی نتیجہ ہے اور ابھی بھی قربانیوں کے سہارے ہی چل رہاہے۔ یہاں تو حکومت بھی قربانیوں سے ہی ملتی ہے اور لولی لنگڑی، اندھی اور بہری جمہوریت بھی اگر ایک دو بار ملی ہے تو صرف قربانیوں کے ہی صدقے نصیب ہوئی ہے۔ اب کہ  منصفینِ کرام کو مسندِ انصاف  بھی بے حساب قربانیوں کے نتیجے میں ملی ہے۔ اس لیئے وہ بھی عوام کی نمائندگی کے دعویدار بن گئے ہیں اور چونکہ وہ بے مثال قربانیوں کی وجہ سے اس مقام پر پہنچے ہیں تو  وہ اپنا بھی فرض سمجھتے ہیں کہ اس ملک کے عوام کی دیرینہ خواہشوں کو حقیقت کا روپ دیں اور  عوام کی نظر وں میں سرخرو رہیں۔

ویسے قربانی کی بھی بہت قسمیں ہوتی ہیں۔ بجلی کے کھمبے پر جھنڈا لگانے سے لیکر رہنما کی لینڈ کروزر ڈرائیو کرنے تک، ہر کوئی اپنی اپنی قربانی دیتا ہے ۔  پہلے قربانی دینے والا صرف قربانی کے جذبے سےمجبور ہو کر قربانی دیتا تھا یا پھر بے دھیانی میں قربانی دے دیتا تھا یا پھر اپنی بے خبری میں قربانی دے جاتا تھا۔ لیکن اب قربانی دینے والے کوبھی اچھی طرح سے معلوم ہے کہ کتنی بڑی قربانی کی کتنی قیمت مل سکتی ہے۔ سو جناب قربانی دینے والے رہنما کو پانی پلانے سے لے کر، سر دبانے تک سب کچھ اس لیے کرتے ہیں کہ ایک نہ ایک دن توسچ کا سورج ضرور طلوع ہو گا اور اس اندھیری رات کا آخرکارخاتمہ  ہوگا۔

سو ہر قربانی دینے والے کا سورج بھی اپنا اپنا ہے اور پھر اگر وہ نہیں نکلتا تو جناب پھر دوسری پارٹی میں قربانی دینے کے لیے پہنچ جاتے ہیں تاکہ اپنے اپنے حصے کا سورج ابھار سکیں۔ سو جناب ہر قربانی دینے والا اپنے اپنے سورج کی تلاش میں ہے پھر وہ قربانی دینے والا سیاست میں ہو، صحافت میں ہو یا ادب میں! ہر کوئی اپنی قربانیوں کی کہانی ساتھ لیے پھرتا ہے۔ اب تو بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ چپڑاسی سے لے کر وزارتوں اور سفارتوں تک جس کی جتنی بڑی قربانی  اس کے لیے اتنا بڑا صلہ۔

بھائی مجھے بھلے نام بھی نہ لکھنا آتا ہو، افسری سے کم پر راضی بھی نہیں ہونگا۔ اور وہ بھی کسٹم میں! ڈاکٹری ہو، انجنیئرنگ ہو یا کوئی اور بڑا امتحان، پاس جلسے جلوسوں میں ہی کیے ہونگے لیکں اصل قابلیت بنے گی  قربانیاں اور پھر قربانیوں کے صدقے جناب محکمے کے سربراہ بن کر آئینگے اور اس کے ساتھ جس نے ساری ساری رات پڑھ لکھ کر اپنی  بینائی گنوا کر امتحان پاس کیے ہونگے، پوزیشنیں لی ہونگی وہ پھربھی بنے گا ماتحت۔

کیا ضرورت ہے کمیشن پاس کرنے کی، کیا ضرورت ہے کوئی اضافی امتحان پاس کرنے کی، بہت آسان طریقہ ہے جناب کے آگے پیچھے رہیں، جناب کی تصویر چھپے گی تو آپ کی بھی تصویر چھپے گی، سب کی نظروں میں آئینگے تو قربانی دینے والوں میں بھی سرِفہرست رہینگے۔ باقی اگر حکومت  آئی تو باڈی گارڈ بھی وزیر بن سکتا ہے۔ سندھ تو ویسے بھی ہے اپنے گھر کی بات، بس صحافی یار کے مشورے سے مشاورت بھی مل سکتی ہے۔ پھر اگر وہ اپنے طبقے کا نمائندہ  تو کیا،  محلے والے بھی اسے نہ پہچانتے ہوں لیکن مشاورت ملنے کے بعد شہر کے ڈی ایس پی سے لے کر بالا حکام تک  سب کی دوڑ ہوگی  اسکے محلے تک۔

ویسے قربانی صرف یہ نہیں کہ کسی نے جیل کھائی ہے یا جلوس میں جاتے ہوئے حادثے میں مر گیا ہے،لیکن قربانی وہ بھی دیتا ہے جو پردیس میں جاکر اچھے دن گذارکر واپس آئے تو وہ بھی قربانی ہی سمجھی  جاتی ہے۔ سو جناب اب ہمارے ہاں قربانی کا اگر صلہ نہیں ملتا تو یار لوگ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں۔ آرٹسٹ ہو، ادیب ہو یا رہنما سب کو شکایت یہی ہے کہ جسکے وہ لائق تھا وہ اسے ملا نہیں اور سارا قصور ہے اپنی قوم کا! ہم جو چار مضامین لکھتے ہیں، چار شعر ،چار افسانے لکھ لیتے ہیں یا چار تصاویر بنا لیتے ہیں تو یہ ہم قوم پر احسان کرتے ہیں۔  قوم بچاری کو معلوم بھی نہیں کہ فلانا خان کون ہے اور میرے لیے کتنی قربانیاں دے رہا ہے! لیکن ہم پہلے تو قوم کو یہ طعنہ دینگے کہ قوم نے ہمیں کیا دیا پھر آنکھیں ڈالینگے سرکار کی آنکھوں میں۔

سرکار کا تو ظاہر ہے کہ فرض ہے کہ سب کے حقوق کا خیال رکھے، سو ہمیشہ کیطرح پہلے تو خود کھائے گی ، پھر کھلائے گی رشتے داروں  اور جان پہچان والوں کو پھر باری آئے گی قربانی دینے والوں کی۔ آخر میں اگرکچھ بچ گیا تو، اسکے لیے باشعور یعنی برتر طبقے میں بھی اپنے لوگ  ہی ڈھونڈھے گی، باقی رہی قوم اسکا تو کام ہے قربانیاں دینا، سو بے خبری میں یا با خبری میں قربانیاں دیے جا رہی ہے۔

رہا باشعور یا برتر و افضل و اعلی طبقہ، اسکو اگر کھانسی بھی ہوجائے تو قوم کو طعنہ ملے گا  یا پھر سرکار کو گالیاں! باقی قوم بچاری روز مر رہی ۔ رہی تعلیم،  وہ اگر قوم کو ملے گی تو قوم بنے گی باشعور، باشعور بنے گی تو پھر وڈیرے کی وڈیراشاہی تو ویسے ہی جائے گی لیکن اپنی بھی آکر برابری کرے گی اور اگر برابری کی تو پھر قربانیاں کون دے گا اور اگر قربانیاں دینے والے نہ رہے تو قربانی لینے والوں کا کیا بنے گا؟

سو جناب، قربانیاں لینے والوں کا تو گذر بسر ہے ہی قربانیاں دینے والوں پر، سو جیسا کہ دونوں لازم و ملزوم ہیں اس لیے بات کو یہیں رہنے دیتے ہیں۔ باقی یہ تو آپ کو بھی معلوم ہوگا کہ لینے والا ہاتھ، جب دینے والے ہاتھ میں تبدیل ہوتا ہے تو۔۔۔۔۔۔


وژیول آرٹس میں مہارت رکھنے والے خدا بخش ابڑو بنیادی طور پر ایک سماجی کارکن ہیں، ان کے دلچسپی کے موضوعات انسانی حقوق سے لیکر آمرانہ حکومتوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ ڈان میں بطور الیسٹریٹر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Hasan Jul 07, 2012 07:49am
اردو مین بلاگ قابل تحسین ھے لیکن یہ رسم الخط (فونٹ) بہت بھدا ھے اسے بہتر بنائں
فرزانہ شاہ Jul 07, 2012 10:08am
واہ واہ! خوش رہیے.