فوٹو -- وکی میڈیا کامنز --.
فوٹو — وکی میڈیا کامنز –.

یہ بلاگ چار حصّوں پر مشتمل سیریز کا دوسرا حصّہ ہے، پہلا حصّہ یہاں دیکھئے


جماعت اسلامی کے ایک سرگرم رکن سے ہماری پہلی ملاقات کا احوال دلچسپ ہے۔ ہم عام طور پر اس قماش کے افراد سے اضافی بحث نہیں کرتے کیونکہ ہمیں دیوار سے سر ٹکرانے کا شوق قطعی طور پر نہیں ہے۔ اس روز ہم صرف اس وجہ سے یہ غلطی کر بیٹھے کیونکہ ہمیں ان صاحب کی سیاسی وابستگی کا علم نہیں تھا اور جس موضوع پر بحث ہوئی اس کا سیاست سے کوئی واسطہ ہی نہیں تھا، یعنی میرے پسندیدہ شعراء۔

ہم نے ادنیٰ سی کوشش کی کہ بات محسن نقوی، قتیل شفائی، ناصر کاظمی، فیض صاحب اور احمد ندیم قاسمی صاحب پر ختم کی جائے لیکن موصوف نے اعتراض کیا کہ آپ شہر اقبال سے تعلق رکھنے کے باوجود اقبال کو اس فہرست میں شامل کیوں نہیں کیا؟ ہم نے اپنی علمیت جھاڑنے کے چکر میں ان کو ایک پورا مضمون سنا دیا (جو کہ یہاں چھپ چکا ہے)۔ انہوں نے بہر حال ہماری تنقید کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنا ایک مضمون شروع کر دیا جس کے مطابق اقبال سے بہتر شاعر تو شائد ہی کبھی دنیا کی تاریخ میں پیدا ہوا ہو، اور، خاص طور پر اقبال کی ’مسلم امہ‘ کے نام شاعری۔

اس طویل تقریر کے بعد ہم نے تو وہاں سے نکلنے کی ٹھانی لیکن اس بات پر ضرور سوچا کہ آخر اقبال میں ایسی کیا خاص بات ہے جو کسی اور میں نہیں؟

گزشتہ مضمون میں عرض کر چکا ہوں کہ اقبال پنجاب کے درمیانے طبقے کی سوچ اور امنگوں کے علم بردار شاعر تھے اور ان کی وفات کے بعد پاکستان کی تاریخ میں ان کو ایک اہم کردار بنانے کا ذمہ بھی پنجابی شاونسٹوں اور پنجابی اسٹیبلشمنٹ نے لیا۔

گزشتہ کچھ دنوں میں ہم کراچی اور حیدر آباد میں آباد مہاجروں کی نمائندہ جماعت کے علاوہ پنجاب کے کاروباری طبقے کے مفادات کی نمائندہ جماعت کے اشتہاروں میں اقبال کا ذکر اور انکی تصویر دیکھ چکے ہیں۔ جماعت اسلامی، جس کے سربراہ کو اقبال محض ایک ’مُلّا‘ سمجھتے تھے (بقول میاں محمد شفیع)، آج اقبال کے گن گاتے نہیں تھکتی۔

اسی طرح سونامی پارٹی، جس کے جیالے عقیدت کے میدان میں بھٹو صاحب کی جماعت کو بھی مات دے چکے ہیں، اقبال کا گاہے بہ گاہے ذکر کرتی ہے۔ امید ہے کہ جس طرح انہوں نے خان صاحب کا موازنہ جناح صاحب سے کیا ہے (حالانکہ اس تاریخی موازنے میں کم از کم دس غلطیاں ہیں)، ویسا موازنہ وہ اقبال کے ساتھ نہیں کریں گے حالانکہ اقبال کے پوتے انکی جماعت میں شامل ہیں۔ اور تو اور، تحریک طالبان والے ( جو پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرا کرنے کے باعث اقبال کے اصلی شاہین ہونے کا شرف رکھتے ہیں) بھی  اپنے بیانات کا آغاز اقبال کے اشعار سے کرتے ہیں۔

طالبان کا اقبال -- ٹویٹر فوٹو --.
طالبان کا اقبال -- ٹویٹر فوٹو --.

اقبال کو امہ کے شاعر کے طور پر پیش کرنے میں ڈاکٹر اسرار احمد کا بھی اہم کردار ہے۔ ماضی قریب میں زید حامد نے بھی اسی طرز پر کچھ تماشا کیا جس میں اس کی مدد اقبال اکیڈمی کی جانب سے بھی کی گئی لیکن زید حامد اس امتحان میں ناکام ٹھہرا۔

یہ امہ کیا ہوتی ہے، ہمیں باوجود تلاش کے علم نہیں ہو سکا۔ ہمارے کئی عزیز عرب ممالک میں اپنی پوری عمریں گزارنے کے باوجود ابھی تک وہاں تیسرے درجے کے شہری ہیں بلکہ شہری بھی نہیں کیونکہ عربوں کا ہمارے سے شہریت والا مذاق بالکل نہیں ہے۔ ہمارے ہاں وہ نایاب پرندوں کے شکار اور لڑکیوں کی خریدو فروخت وغیرہ کے سلسلے میں چکر لگاتے ہیں، اس طرز کے تعلق کو اگر آپ امہ کہنے کو تیار ہیں تو ضرور ہوں، ہم بغیر اس جھنجٹ کے ہی بہتر ہیں۔

اس مضمون میں ہم اقبال کی شاعری کے دو مختلف پہلوؤں پر بات کرنا چاہتے ہیں جن میں پہلا اقبال کا مختلف حکمرانوں سے متاثر ہونا اور انکی مدح سرائی ہے۔ اس سلسلے میں نپولین، مسولینی، نادر شاہ، بھوپال کے نواب حمیداللہ، پنجاب کے گورنر مائیکل او ڈائر شامل ہیں۔

حکمرانوں کی تعریف کوئی بری بات نہیں ہے لیکن کسی معیار کو مد نظر ضرور رکھنا چاہیے۔ نپولین نے نہ صرف یورپ بلکہ افریقہ کو بھی جنگ کا میدان بنایا اور اس نے فوج کی سیاست میں مداخلت کا ایک بھیانک رواج قائم کیا۔

مسولینی اور اسکی فاشسٹ جماعت، ملک کی محبت کو ایک نئے درجے پر لے گئے اور اپنے مخالفین کو غداری کے الزام میں سزائیں دیں۔ نادر شاہ اور اس کی افواج نے دہلی کی عصمت جس طرح تار تار کی، اسکی مثال ملنی مشکل ہے۔ گورنر او ڈائر کے سانحہ جلیانوالہ باغ میں کردار سے ایک زمانہ واقف ہے۔

نپولین کے مزار پر علامہ نے لکھا:

راز ہے راز ہے تقدیر جہان تگ و تاز جوش کردار سے کھل جاتے ہیں تقدیر کے راز

جوش کردار سے شمشیر سکندر کا طلوع کوہ الوند ہوا جس کا حرارت سے گداز

مسولینی کے بارے میں فرمایا:

ندرت فکر و عمل کیا شے ہے ؟ ذوق انقلاب ندرت فکر وعمل کیا شے ہے؟ ملت کا شباب

چشم پیران کہن میں زندگی کا فروغ نوجواں تیرے ہیں سوز آرزو سے سینہ تاب

فیض یہ کس کی نظر کا ہے؟ کرامت کس کی ہے؟ وہ کہ ہے جس کی نگہ مثلِ شعاعِ آفتاب

دوسرا پہلو جس پر ہم روشنی ڈالنا چاہتے ہیں، اقبال کا حقوق نسواں اور اسکی تحریکوں کا تمسخر اڑانا ہے۔ ’آزادی ء نسواں‘ نامی نظم ملاحضہ کریں:

اس بحث کا کچھ فیصلہ میں کر نہیں سکتا گو خوب سمجھتا ہوں کہ یہ زہر ہے ، وہ قند

کیا فائدہ کچھ بھی کہہ کر بنوں اور بھی معتوب پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند

اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش مجبور ہیں، معذور ہیں، مردانِ خرد مند

کیا چیز ہے آر ائش و قیمت میں زیادہ آزادی ء نسواں یا زمرد کا گلو بند؟

ایک اور مقام پر فرمایا:

میں بھی مظلومیء نسواں سے ہوں بہت غم ناک نہیں ممکن لیکن اس عقدہء مشکل کی کشود!

یہ دو نوں پہلو اس نکتے کی تائید کرتے ہیں کہ اقبال پنجابی بورژوا کے نمائندے تھے۔ فوجی یا سخت حکمرانوں کی خواہش کی روایت اہل پنجاب کے لیے کوئی نئی بات نہیں اور خواتین کے حقوق کے مسئلے کو بھی یہاں کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ جماعت اسلامی کے انہی کارکن کے الفاظ میں اسے یوں بیان کیا گیا کہ ’آخر یہ حقوق نسواں کا جھنڈا ہمیشہ بے پردہ، پر کٹی خواتین ہی کیوں اٹھاتی ہیں‘۔

پنجابی مسلمان کے اس رویے کو اگر اقبال ہی کے الفاظ کا پیراہن پہنایا جائے تو کچھ مضائقہ نہیں؛

مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبیعت کر لے کہیں منزل تو گزرتا ہے بہت جلد

تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد

تاویل کا پھندا کوئی صیاد لگا دے یہ شاخ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد

پنجابیوں کی ایک اور عادت جس میں علامہ مہارت رکھتے تھے، فن جگت تھی۔ برادرم سروپ اعجاز کی توسط سے ہم اس سلسلے میں جو کچھ سن چکے ہیں، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ علامہ اس فن میں بھی بہت طاق تھے۔

(جاری ہے)


majeed abid 80عبدالمجید کا تعلق سیالکوٹ سے ہے اور انہیں تاریخ، سیاست اور معاشیات کے مضامین میں دلچسپی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (5) بند ہیں

Naeem May 08, 2013 07:45pm
I wish I could reply you in Urdu but I am not very comfortable in typing Urdu. You have no idea of the philosophy of Iqbal. Let me tell you one thing, the minimum qualification to able to critique Iqbal is to have a good understanding of philosophy. Without being a student of philosophy proper, one would exactly do what Jamat i Islami or people like you do. Take his few verses, put in your story and claim the truth authenticity of your version. Just to remind you, Iqbal got doctorate in philosophy from Germany which has no parallel in producing world class intellectuals in almost all disciplines of knowledge. Marx, Nietzsche, Goethe, Webber, Einstein, Kant and you name it. here what you are talking about Iqbal's praise of rulers is the notion of power for Iqbal. If you can read some books in English or french, I would recommend you reading the work of twentieth century famous sociologist Michel Foucault. He is a post-modern writer and his notion of power has jolted the social sciences. It is not very good to quote Iqbal's verses to use for making up your own story. Let me quote you some ideas of Iqbal on power and then try to connect it with your reading of Iqbal's praise of powerful rulers. "Give up waiting for the Mehdi – the personification of Power. Go and create him. (Iqbal, Stray reflections, p.86)" The powerful man creates environment; the feeble have to adjust themselves to it. (p.82) “I find God reveals Himself in history more as power than love. I do not deny the love of God; I mean that, on the basis of our historical experience ,God is better described as Power” (p.24). “Civilization is a thought of the powerful man. (1940, p.84) Regards Muhammad Naeem Fulbright PhD Scholar, University of Massachusetts, USA.
یمین الاسلام زبیری May 08, 2013 09:21pm
میں ساٹھ سال سے اوپر کا ہوں، اور اتنے ہی سالوں سے علامہ کا شیدائی ہوں. جب بہت چھوٹا تھا تو علامہ کا ایک شعر بہت عرصے تک میرے لیے معمہ بنا رہا. شعر ہے: شیاطین ملوکیت کی آنکھوں میں ہے وہ جادو ، کے خود نخچیر کے دل میں ہو پیدا ذوق نخچیری. لغت دیکھنے کی زحمت نہ کی اور سوچا کہ نخچیر شاید خچر کی قسم کا کوئی جانور ہے. سن رکھا تھا کہ خچر نہ مادہ ہوتا ہے نہ نر. خاصے عرصے بعد یہ عقدہ کھلا. آپ سمجھ گئے ہونگے کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں.
عبدالمجید May 09, 2013 06:17am
Dear M.Naeem, If you look carefully at the title, I'm not trying to explore who Iqbal is, I said it in my first part that a lot of books have been written on that topic. I'm trying to explore Iqbal's public image/perception, which is called "Tasawwur e Iqbal". I don't know how people lacking basic reading skills can become PhD Scholars. I haven't even addressed Iqbal's philosophy because that was not what I aimed to do till now, I want to write on that in the next episode. I haven't done it till now because Iqbal's philosophy is not in the public domain, very few people in this country even understand what philosophy is. I am not trying to cherrypick, just following the trends that are found in Iqbal's poetry. If you have any evidence to the contrary, If you think I am wrong in identifying these trends, that Iqbal was NOT a Misogynist and fan of fascists, kindly correct me with appropriate references from Iqbal's poetry.
Murad May 09, 2013 08:44pm
Very good jinab, Iqbal ko to kabhi Anne Marrie Schimmel aur baqi Iqbaliyat k scholars nai punjabi middle class ka numainda nhe kaha. aap ke basirat k keya kehne. Wah Wah! Aap bhe Iqbal ke shairi main sai bhe apni man pasand cheezain nikal rhe hain. Kia kehne aap k.
Murad May 10, 2013 12:08pm
Maybe Prophet Muhammad (PBUH) was also a misogynist for you as well (Nauzubillah)? Since Iqbal's views about Women were very close to the views of Prophet (PBUH) Iqbal wrote about women what he thought was correct in the light of Islamic teachings. You can disagree with him but to label him as a misogynst is unfair. As for your point that Iqbal praised dictators, whole of France considers Napoleon its hero. Attaturk was also a dictator in many ways, Turks love him to this day. Point is that these great men altered the course of history, Iqbal like their energy and their will to change the present conditions of human beings. Iqbal praised Mussolini when he met him for the first time, he was at that time loved by the Italian masses but when he attacked Abyssinia, the same Iqbal denounced him. All what you seem to be doing here is that you are cherry picking some parts of his poetry and trying your best to portray Iqbal according to the grudges which you seem to be holding against him. Many women rights movements in West led to the sexualization of their socities. Iqbal was not against giving women their rights but he was suspicious of the movements originating in West since many ideas propagated by these movements were against the basic teachings of Islam. Criticizing some women rights movements does not make one a misogynist. Kia kehne aap ke Iqbal Shanasi kai. Mian, jis ka kaam usi ko sajhay, koi aur kaam keje ja kai Jinab. Even an ordinary reader of Iqbal's poetry can debunk the myths which you are propagating here.