روایت ہے کہ ’سیاست کے خیمے میں مذہب کا اونٹ داخل ہوتا ہے تو انسانیت منہ لپیٹ کر باہر نکل آتی ہے‘۔ پاکستان کی تاریخ میں مذہب اور سیاست کے امتزاج کا بہترین نمونہ جماعت اسلامی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں مذہبی جماعتوں کے کردار کو سمجھنے کے لیے جماعت کی تاریخ پر نظر ڈالنا وقت کا تقاضا ہے۔ موجودہ حالات یہ ہیں کہ ارض پاک مذہبی تنازعات میں گھری ہوئی ہے اور مذہبی جماعتیں، جنہیں عوام نے کبھی ووٹ ڈالنا مناسب نہیں سمجھا، اس ملک کی نظریاتی ٹھیکے دار بنی بیٹھی ہیں۔

'سیاست ایک گٹر ہے'، یہ فقرہ ہم سب بہت بار سن چکے ہیں، لیکن مذہب اور سیاست کے تعلق پر بات کرنا کبھی گوارہ نہیں کرتے. اگر سیاست گٹر ہے تو ظاہر ہے اس میں ملنے والی ہر چیز غلیظ اور ذلیل ہی ہوگی. تاریخ گواہ ہے مذہب کے نام پر سیاست کی اجازت ہونے کا واحد ایک ہی مطلب اور نتیجہ نکلتا ہے، ذاتی اور سیاسی مفاد کیلئے مذہب جیسے عظیم اور مقدّس آئیڈیل کا ناجائز استعمال اور استحصال.

گو علامہ اقبال نے مذہب اور سیاست کے تعلق سے فرمایا تھا؛

"جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی"

لیکن پاکستانی تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے، ہمیں یقین ہے کہ علامہ اگر آج حیات ہوتے تو ضرور کرّاہ اٹھتے کہ؛

"ملے جو دیں سیاست سے تو آجاتی ہے چنگیزی!"

پاکستان کی تاریخ میں مذہبی سیاست کے داغدار کردار کو قارئین تک پہنچانے کے لیے ہم نے اس سلسلہ مضامین کا آغاز کیا ہے، اور ہم جماعت اسلامی کو بطور مثال پیش کر کے یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ مذہب اور سیاست کو اکٹھا کرنا ایک سنگین غلطی ہے اور ہم آج اس غلطی کی سزا بھگت رہے ہیں۔


السٹریشن -- وکی میڈیا کامنز
السٹریشن -- وکی میڈیا کامنز


یہ اس بلاگ کا دوسرا حصّہ ہے، پہلے حصّے کے لئے کلک کریں

تقسیم ہند کے موقعے پر پٹھان کوٹ سے فوجی ٹرکوں پر کتابیں لاد کر لاہور لانے والے مودودی صاحب اور انکی قائم جماعت نے کبھی جمہوریت یا جمہوری نظام کو تسلیم نہیں کیا اور ہمیشہ ابن الوقتی کی سیاست کی۔ آئیے اب تقسیم کے بعد جماعت کی کارستانیاں ملاحضہ کرتے ہیں۔

جنوری اور جون 1947ء میں شائع ہونے والے کوثر اخبار میں مولانا نے "مسلم لیگ کے پاکستان" کو "فاقستان" اور "لنگڑا پاکستان" قرار دیا۔ مسلم لیگ کو کئی سال طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے کے بعد اسی لیگ کی کوششوں کے باعث قائم ملک میں ڈیرہ جمانے کے بعد جماعت مودودیہ نے اپنی چودھراہٹ قائم کرنے کی سعی شروع کی۔

16 نومبر 1947ء کے روز مودودی صاحب نے کوثر اخبار میں لکھا؛

"ہم سے یہ بھی پوچھا جاتا ہے کہ تم لوگ جب اس تحریک کے ہی ہمنوا نہیں تھے جس کے نتیجے میں پاکستان بنا ہے تو اب آخر کیا حق پہنچتا ہے کہ اس پاکستان کی سرزمین میں پناہ لو؟

اس سوال کا جواب ہمارے پاس یہ ہے کہ ہاں فی الواقع ہماری حیثیت پاکستان میں پناہ گزینوں کی سی ہے اور اگرچہ ہم اس تحریک کو آج بھی صحیح نہیں سمجھتے جس کی بنیاد پر پاکستان بنا ہے اور پاکستان کا اجتماعی نظام جن اصولوں پر قائم ہو رہا ہے ان اصولوں کو اسلامی نقطہ نظر سے ہم کسی قدر و قیمت کا مستحق نہیں سمجھتے، لیکن جو چیز ہمیں یہاں کھینچ لائی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں کے باشندے اعمال وکردار کے لحاظ سے چاہے کوئی بھی رویہ رکھتے ہیں لیکن بہر حال وہ اس خدا کا نام لیتے ہیں جس کی عبادت و طاعت ہماری نگاہ میں واجب ہے۔

وہ اپنے آپ کو اس کتاب کا حامل مانتے ہیں جس کے ایک ایک شوشے کی پابندی ہر مسلمان کے لیے فرض عین ہے اور وہ اس اسلامی نظام کے قیام کو خواہش ظاہر کرتے ہیں جس کے سوا کسی دوسرے نظام کو قائم کرنا یا قبول کرنا روا نہیں ہے۔ اب ہم اس سرزمین پر اس توقع سے قدم رکھ رہے ہیں کہ یہاں ہمارے لئے مسلمان کے لئے دین کا کام کرنا نسبتاََ سہل ہوگا اور یہاں ہم کو اسلامی نظام کے برپا کرنے کے مواقع حاصل ہوں گے۔

پاکستان بنانے کے لئے چاہے انداز غلط اختیار کیا گیا ہو لیکن مسلمانوں سے ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ اب پاکستان کو حاصل کر لینے کے بعد صحیح اسلامی اصولوں پر اسے فی الواقع پاکستان بنانے میں پس وپیش نہ کریں گے اور یہاں ایسی حکومت قائم کرنے میں حصہ لیں گے جو پچھلی کوتاہیوں کو پورا کرنے والی ہو"۔

اگست سن 1975ء میں مودودی صاحب نے نوائے وقت میں ایک مضمون لکھا جس کے مطابق؛

"ہم مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کی حمایت کرتے تھے لیکن مسلم لیگ کے راستے کی رکاوٹ نہ بنے۔ اگر لیگ اپنے مقصد میں ناکام ہو جاتی تو ہم میدان میں اتر آتے!" (اس قسم کی ذہنی قلابازیاں حضرت ساری عمر کھاتے رہے)۔

سن 1948ء کے اوائل میں مولانا نے لاہور کے لاء کالج میں ’اسلامی دستور‘ کے خدوخال پر اپنی ماہرانہ رائے کا اظہار کیا، جس کے جواب میں مسلم لیگ کے راہنما راجہ غضنفر علی اور معروف ادبی شخصیت فیض احمد فیض نے اس ’ناقابل عمل‘ تجویز پر مولانا کے خوب لتے لیے۔ مولانا کو لاء کالج اور ریڈیو پاکستان پر ’اسلامی دستور‘ کے متعلق اظہار خیال کا موقعہ حکومت پنجاب کے ’محکمہ تعمیر اسلامی‘ نے دیا تھا۔ بقول زاہد چوہدری؛

"قائداعظم کے سیکولر نظریے کے خلاف کراچی سے بھی بڑا محاذ پنجاب کے رجعت پسند جاگیرداروں اور درمیانے طبقے کے قدامت پسند عناصر نے بنایا تھا۔ اس صوبے کا وزیر اعلی ایک نیم تعلیم یافتہ اور کم عقل جاگیر دار نواب افتخار ممدوٹ تھا جو یہ سمجھتا تھا کہ اس کے اپنے اور اس کے طبقے کے مفادات کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کو صبح و شام سیاسی حربے کے طور پر استعمال کیا جائے۔ اس نے اپنے دوستوں کے مشورے کے مطابق پہلے تو ستمبر میں ایک شخص غلام محمد اسد سے ریڈیو پاکستان لاہور سے "اسلام اور مسلمان" کے عنوان سے تقریروں کا ایک سلسلہ شروع کروایا اور پھر اکتوبر میں اسکی سربراہی میں ایک نئے محکمے بنام "تعمیر اسلامی" کا اضافہ کیا۔

یہ شخص آسٹریا کا ایک یہودی تھا اور اسکا اصلی نام لیوپولڈ ویس تھا۔ اس نے روس میں 1917ء کے پرولتاری انقلاب کے بعد اسلام قبول کر کے بطور اخبار نویس مشرق وسطی میں سارے عالم عرب کا دورہ کیا تھا۔ انگریزوں نے دوسری جنگ عظیم کے دوران ہٹلر کا جاسوس ہونے کے شبے میں اسے احمد آباد میں نظر بند کیا تھا۔ جنگ کے خاتمے پر اس کی رہائی ہوئی تو اس نے لاہور میں ڈیرے ڈال لیے اور قیام پاکستان کے بعد یہاں اسلام کا عظیم ترین علم بردار بن بیٹھا۔

اس کی زندگی کا اپنا یا کسی کا دیا ہوا واحد نصب العین یہ تھا کہ مشرق وسطی اور برصغیر کے شمال مغربی علاقے میں سویت یونین کے اثر و رسوخ کا سدباب کیا جائے۔ اس نے اکتوبر کے دوسرے ہفتے میں اپنے محکمہ تعمیر اسلامی کا چارج سنبھالا اور چند دن بعد ریڈیو پاکستان لاہور سے تقریر کی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ہماری یہ مملکت پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے اور ہم مسلمان اسلام سے وابستگی کی وجہ سے ایک قوم ہیں۔"

حال ہی میں مودودی صاحب کے نظریاتی وارثین، اوریا مقبول اور انصار عباسی نے ببانگ دہل یہ دعوی کرنا شروع کیا ہے کہ محکمہ تعمیر اسلامی جناح صاحب کے ایماء پر بنایا گیا ہے۔ تاریخ کی الف بے سے ناواقف ان نادانوں نے ریت جو کے محل تعمیر کرنے شروع کیے ہیں، انکی مثال وہی ہے جیسے ضیاء دور میں حکومت نے قائد اعظم کی ایک مبینہ ڈائری دریافت کر لی تھی۔

یاد رہے کہ کچھ ماہ قبل پنجاب سیکریٹریٹ میں نادر کتابوں اور نسخوں کی تشویشناک حالت کے بارے میں خبر پھیلی تھی، آج کل اوریا صاحب اسی محکمے کے سیکر ٹری ہیں۔ وہ اس وقت تاریخی کتب کا بندوبست کرنے کی بجائے جھوٹی دستاویزات عوام کو دکھانے میں مصروف ہیں۔ انصار عباسی صاحب نے اس محکمے کو ختم کرنے کا الزام ظفر اللہ خان صاحب پر دھر دیا ہے۔ کاش وہ ایسی پخ لگانے سے قبل قرارداد مقاصد کے حق میں ظفراللہ صاحب کی تقریر کا مطالعہ کر لیتے۔

جنوری 1948ء میں اس محکمے نے صوبے میں میاں افتخار الدین کی تقسیم اراضی کی تجویز اور عوام میں اس نظریے کی شہرت کا سدباب کرنے کیلئے مودودی صاحب کو ریڈیو پر "اسلامی کا معاشی نظام" کے موضوع پر تقاریر کے لیے بلایا۔

مولانا نے فرمایا؛ "اسلام جس مساوات کا قائل ہے، وہ رزق میں مساوات نہیں بلکہ حصول زرق کی جدوجہد کے مواقع میں مساوات ہے۔ فطرت سے قریب تر نظام وہی ہو سکتا ہے جس میں ہر شخص معیشت کے میدان میں اپنی دوڑ کی ابتدا اس مقام اور اسی حالت سے کرے جس پر خدا نے اسے پیدا کیا ہے۔ فطرت سے قریب تر نظام وہی ہو سکتا ہے جس میں ہر شخص معیشت کے میدان میں ابتدا اسی مقام سے کرے جس پر وہ پیدا ہوا، جو موٹر لیے ہوئے آیا ہے وہ موٹر ہی پر چلے، جو صرف دو پاؤں لایا ہے وہ پیدل ہی چلے اور جو لنگڑا پیدا ہوا ہے وہ لنگڑا کر ہی چلے۔ سوسائٹی کا قانون نہ تو ایسا ہونا چاہئے کہ وہ موٹر والے کا مستقل اجارہ موٹر پر ہی قائم کر دے اور لنگڑے کے لیے موٹر کا حصول ناممکن بنا دے اور نہ ہی ایسا ہونا چاہئے کہ سب کی دوڑ زبردستی ایک ہی مقام اور ایک ہی حالت سے شروع ہو"۔

13 جنوری کو راولپنڈی میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے مولانا نے کہا؛ "اب مسلمانوں کا نصب العین پورا ہو گیا ہے تو پاکستان کے علم برداروں کو چاہئے کہ اس مسلم ملک میں اسلامی قوانین کے مطابق آئین مرتب کر کے اپنے وعدے پورے کریں"۔

15 جنوری کو پشاور میں ایک استقبالیہ تقریب میں اعلان کیا؛

"پاکستان ہماری لیبارٹری ہے! ہم اس لیبارٹری میں دنیا کو سکھا دیں گے کہ 1300 سال پرانے اصولوں کا اب بھی اطلاق ہو سکتا ہے"۔

29 جنوری کو پنجاب اسمبلی میں مسلم پرسنل لاء ایپلی کیشن بل پر بحث ہوئی تو ملاؤں کے ایک ترجمان مولانا عبدالستار نیازی نے اس بناء پر اس کی مخالفت کی کہ یہ مسودہ قانون ان کے تصور کے مطابق اسلامی شرع کے مطابق نہیں تھا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ انگریزوں کے وضع کردہ موجودہ عدالتی نظام کو ختم کر کے اس کی جگہ شرعی عدالتوں کا نظام قائم کیا جائے اور چھوٹی عدالتوں میں ججوں کی جگہ قاضیوں اور مفتیوں کا تقرر کیا جائے۔

مارچ 1948ء میں مولانا نے اپنے قاصد کراچی بھیجے تاکہ قانون ساز اسمبلی کے کارکنان کو اس بات پر قائل کیا جائے کہ وہ مقننہ میں پاکستان کے ’نظریاتی ریاست‘ ہونے کی قرارداد پیش کر سکیں (اس موقعہ پر یہ کوشش کامیاب نہ ہوئی)۔

6 اپریل 1948ء کو ڈان اخبار سے انٹرویو کے دوران مولانا نے دستور ساز اسمبلی سے مندرجہ ذیل مطالبات کیے؛

1۔ عوام الناس کی حاکمیت کی بجائے اللہ تعالی کی حاکمیت کو تسلیم کیا جائے ۔

2۔ یہ تسلیم کیا جائے کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنیاد پر بنایا جائے گا ۔

3۔ غیر اسلامی قوانین میں ترمیم کی جائے گی اور شریعت کے منافی کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا ۔

4 ۔ حکومت پاکستان شریعت کی حدود میں رہ کر اپنے اختیارات کا استعمال کرے گی۔ (بعدازاں یہی الفاظ قرارداد مقاصد اور پاکستان کے دستور کا حصہ بنے)

اس انٹرویو سے قبل مولانا نے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا؛

"ہماری قوم نے اپنے لیڈروں کے انتخاب میں غلطی کی تھی اور اب یہ غلطی نمایاں ہو کر سامنے آ گئی ہے۔ ہم چھ سال سے چیخ رہے تھے کہ محض نعروں کو نہ دیکھو بلکہ سیرت اور اخلاق کو بھی دیکھو۔ اس وقت لوگوں نے پرواہ نہ کی لیکن اب زمام کار ان لیڈروں کو سونپنے کے بعد ہر شخص پچھتا رہا ہے کہ واہگہ سے دہلی تک کا بڑا علاقہ اسلام کے نام سے خالی ہو چکا ہے۔"

اسی سال مودودی صاحب نے سرکاری ملازمت کے لیے برطانیہ کے نام حلف اٹھانے کو گناہ قرار دیا۔ کشمیر میں جاری گوریلا جنگ کے خلاف مولانا نے موقف اختیار کیا کہ جہاد کی اجازت صرف اسلامی حکومت ہی جاری کر سکتی ہے (سن 1941ء میں انکا موقف تھا کہ حکومت غیر شرعی ہو تو فرد واحد جہاد کے لیے ہتھیار اٹھا سکتا ہے)۔ کشمیر میں جنگ کے خلاف انکے ’فتوے‘ کو (بھارتی حکومت کے ایماء پر) سرینگر اور کابل ریڈیو سے نشر کیا گیا۔

جون 1948ء میں ماہنامہ ترجمان القرآن کا پہلا شمارہ پاکستان سے شائع ہوا اور اس میں مسلم لیگ کے راہنماؤں کے بارے میں مندرجہ ذیل خیالات کا اظہار کیا گیا؛

"یہ عین وہی لوگ ہیں جو اپنی پوری سیاسی تحریک میں اپنی غلط سے غلط سرگرمیوں میں اسلام کو ساتھ ساتھ گھسیٹتے پھرتے ہیں۔ انہوں نے قرآن کی آیات اور احادیث کو اپنی قوم پرستانہ کشمکش کے ہر مرحلے میں استعمال کیا ہے۔ انہوں نے پاکستان کے معنی 'لا الہ الا اللہ' بیان کیے ہیں، لیکن افسوس کہ ان کی محبت اسلام کے، ان کی خدا ترسی کے، ان کی حب رسالت کے، ان کی قرآن دوستی کے، اور ان کی لاالہ نوائی کے جو عملی مناظر پاکستان کے دس ماہ کی تاریخ کے عجائب خانے میں آراستہ ملتے ہیں، ان کو دیکھ کر ہر حساس مسلمان کی گردن شرم سے جھک جاتی ہے۔ کسی ملک و قوم کی انتہائی بدقسمتی یہی ہو سکتی ہے کہ نا اہل اور اخلاق باختہ قیادت اس کے اقتدار پر قابض ہو جائے۔ اگر حالات معمولی نہ ہوں بلکہ ایک قوم کی تعمیر کا آغاز ہو رہا ہو اور یہ آغاز بھی نہایت سازگار دور کے درمیان ہو رہا ہو، ایسے حالات میں کسی غیر صالح قیادت کو ایک منٹ کے لیے بھی گوارا کرنا خلاف مصلحت ہے۔ ایک غلط قیادت کی بقا کے لیے کسی طرح کی کوشش کرنا ملک وقوم کے ساتھ سب سے بڑی غداری اور غلط قیادت سے نجات دلانے کی فکر کرنا اس کی سب سے بڑی خیرخواہی ہے۔"

جواب میں نوائے وقت نے تبصرہ کیا؛

"جو لوگ کل تک پاکستان کے مخالف تھے اور لیگ کی تنظیم سے الگ رہے بلکہ انہوں نے انتخابات میں لیگ کے امیدواروں کی مخالفت کی، وہ آج نظام شرعی کے حامی بنے ہوئے ہیں اور پاکستان کو ناکام بنانے کے لیے مذہب کی آڑ لے رہے ہیں۔"

غلام جیلانی برق نے لکھا؛

"سلطنت کے بنے ایک سال نہیں ہوا لیکن ملّاؤں کی ایک خاص جماعت تخریب میں مصروف ہو گئی ہے۔ اگر یہ فتنہ کار ملّا اپنی حرکات سے باز نہ آئے تو ہم قوم کو یہ بتانے پر مجبور ہو جائیں گے کہ ہمارے 'نام نہاد علماء' نے کتنی ہزار مرتبہ کیسے کیسے محشر اٹھائے۔ آج شریعت شریعت کرنے والے ایک صاحب ایسے بھی ہیں جو ہمیشہ پاکستان کے خلاف کام کرتے رہے۔ جنہوں نے پچھلے سال جہاد کشمیر کو فساد قرار دیا۔ آج جب پاکستان ایک حقیقت ثابتہ بن چکا ہے تو وہ خدائی شریعت کا لبادہ اوڑھ کر پاکستان کو کمزور کرتے پھرتے ہیں۔"


ریفرنس:

روداد جماعت اسلامی -- http://www.quranurdu.com/books/urdu_books/Roodad%20Jamat-e-Islami%201.pdf

تحریک جماعت اسلامی: ایک تحقیقی مطالعہ، اسرار احمد -- http://www.scribd.com/doc/126864150/tehreek-e-jamat-e-islami-by-dr-israr-ahmed

پاکستان کی سیاسی تاریخ: ترقی اور جمہوریت کو روکنے کیلئے اسلامی نظام کے نعرے -- زاہد چوہدری

Sayyid Abul A'ala Maududi & his thought -- Masud ul Hasan

The Vanguard of Islamic Revolution, Vali Nasr -- http://publishing.cdlib.org/ucpressebooks/view?docId=ft9j49p32d;brand=ucpress

تبصرے (9) بند ہیں

Tatiq Dec 30, 2013 11:04pm
پاکستان اسلام کے نام پر تخلیق ہوا تھا، اس لیے یہاں صرف اسلام کے نام پر سیاست ہونی چاہیے تھی۔ لیکن یہاں فوج کے نام پر سیاست ہوئی، سیکولرازم کے نام پر سیاست ہوئی، سوشلزم کے نام پر سیاست ہوئی، صوبے کے نام پر سیاست ہوئی، زبان کے نام پر سیاست ہوئی
Hasan Dec 30, 2013 11:58pm
@Tatiq: Molvi tu Pakistan kay khilaf thay tu yeh mulk Islam kay naam pay kesay bana hai? kiya molvi Islam kay khilaf thay?
zahid Dec 31, 2013 09:42am
@Tatiq: Pakistan kay masail ka aik hi solution hay Fauji Amriat, kiunke Army sirf Pakistan ki Mukhlis hay
بقلم خود Dec 31, 2013 12:39pm
جی بالکل ٹھیک لکھا آپ نے۔ کل رات گھنٹوں سی این جی کیلیٔے کےلأین میں لگی ھویٔ عوام بھی یہی کہ رھی تھی کہ گیس کی یہ قلت جماعت اسلامی کی موجودہ اور پچھلی حکومت کی وجہ سے ھے-
وسیم Dec 31, 2013 06:48pm
@Tatiq: بھا ئی صاحب اس ملک میں صرف اسلام کے نام پر ہی سیاست ہوئی ہے اور اگر خدا توفیق دے تو اس طوفان پر بھی نظر ڈال لیں جو ہماری مزہب پرستیوں نے اٹھائیا ہے اور اب زندوں سے ہوتے ہوئے قبروں تک پہنچ گیا ہے خدا اس ملک کو ًزہب اور اہل مذہب دونوں سے بچائے
نعمان Dec 31, 2013 07:56pm
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
Waseem Jan 01, 2014 01:00am
Writer is biased about topic, if he need the true comparison he must include the policies and their consequences. Jamal Islami Can wright or wrong but Islam will never be wrong. Writer should explain the achievements of JI. Question with Writer: please let us know about any money scam with JI. Is any JI leader is drinker, rapist, Fudal, and keeping his assets out side Pakistan
طارق محمود Jan 01, 2014 03:49pm
اگر سیاست گٹر ہے تو ظاہر ہے اس میں ملنے والی ہر چیز غلیظ اور ذلیل ہی ہوگی))يه كلمات مقاله نكار كه هين اور اس مقاله كو تحرير كرنـ والا بس خود هى صفائى كا حق محفوظ ركهنا خاص ابنا حق سمجهتا هه اس مقاله كا محرر شديد قسم كى مسلم دشمنى مين مبتلا هه لهذا اسكى صحيح بات بهى عدل كه اصول بر بورى نهين اترتى جب تك يه تعصب كى عينك لكا كر تبصره فرماتــ رهين كـ اور انكى تحريرون كو نشر كيا جائيكا اصلاح تو دور كى بات تخريب در تخريب هوتى رهيكى , افسوس لوك اصلاح نهين اس معاشرئـ مين تخريب كيلئـ سركرم هين,
یمین الاسلام زبیری Jan 01, 2014 08:24pm
اگر صرف کسی ایک طبقے کے لیے جماعت بنائی جائے گی تو وہ اسی طبقے والوں کا خیال کرے گی، مثلا اگر کھلونے والے اپنی ایک جماعت بنائیں گے تو وہ صرف ان کے مفادات کا خیال کرے گی۔ یہی حال مذہبی جماعتوں کا ہے، یہ صرف اپنے مسلک والوں کے لیے مراعات کا خیال کرتی ہیں۔ مچھے اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی سوائے اس کے کہ یہ جھوٹ بولتی ہیں کہ یہ پورے ملک کے عوام کی خادم ہیں۔ حقیقت میں پورے پاکستان کے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت کے نام میں اسلام کا نام ائے گا ہی نہیں، اور اس کے کرتا دھرتا مسلمان ہوں گے۔ یہ کرتا دھرتا سڑک کے قوانین، عمارات کے لیے قوانین اور کھانے پینے کی اشیا کے بنانے کی جگہون کے قوانین پر غور کریں گے، ساتھ ساتھ احترام رمضان جہسے قونیں پر بھی۔ یہ ہر مسلک والے کے لیے کھلے دل سے کام کریں گے، مسلک کیا غیر مذہب والوں کے کام بھی دل سے کریں گے۔ ان کا منشا مسلمانوں کی خدمت ہوگا نہ کہ کسی مسلک والوں کی۔ پس اگر لوگ مذہبی جماعتوں کو منتخب نہیں کرتے تو کچھ غلط نہیں کرتے۔