اسلام آباد: قومی اسمبلی میں تحفظِ پاکستان بل 2014ء کو بھاری اکثریت کے ساتھ منظور کرلیا گیا ہے جو آئندہ دو سال کے لیے نافذالعمل ہوگا۔

قومی اسمبلی میں یہ بل سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر زاہد حامد کی جانب سے پیش کیا گیا جس کو بھاری اکثریت سے منظور کیا گیا۔

خیال رہے کہ اس بل کو ایوانِ بالا یعنی سینیٹ میں پہلے ہی بھاری اکثریت سے منظور کیا جاچکا ہے جہاں پر کسی بھی جماعت نے اس کی مخالفت نہیں کی تھی۔

ڈان نیوز ٹی وی کے مطابق قومی اسمبلی کے موجودہ اجلاس میں تحفظ پاکستان بل کی منظوری دی جائے گی۔

بل کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو غیر معمولی اختیارات حاصل ہوجائیں گے جن میں کسی بھی مشتبہ شخص کو گولی مارنے اور ساٹھ دن تک حراست میں رکھنے کا اختیار بھی شامل ہے۔


پی پی او کیا ہے؟



مزید پڑھیں: سینیٹ میں تحفظ پاکستان بل بھاری اکثریت سے منظور


سینیٹ میں منظوری کے وقت قائمہ کمیٹی نے ایک اہم ترمیم منظور کی تھی جس کے تحت مشتبہ فرد کو گولی مارنے کا اختیار صرف قانون نافذ کرنے والی ایجنسی کے اہلکار یا پندرہ گریڈ یا اس سے زیادہ کے افسر کے پاس ہوگا۔

واضح رہے کہ اس بل کا مقصد ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی پر قابو پانا اور شرپسندوں کو موثر اورکڑی سزائیں دلانا ہے۔

تحفظ پاکستان آرڈیننس صدر ممنون حسین نے پچھلے سال اکتوبر میں جاری کیا تھا تاہم بعد میں اس سال جنوری میں اصل آرڈیننس میں ترمیم کے لیے ایک اور آرڈیننس جاری کیا گیا۔


جماعت اسلامی کی مخالفت


امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ تحفظ پاکستان پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہریوں کو بنیادی حقوق سے محروم کرنے کے بل منظور کرنا افسوسناک ہے۔

لاہور سے جاری بیان میں سراج الحق کا کہنا تھا کہ تحفظ پاکستان بل سویلین حکومت کا ایسا فیصلہ ہے جس کی مثال آمرانہ دور میں بھی نہیں ملتی۔

انہوں نے کہا کہ اس بل کے ذریعے ریاستی اداروں کے لئے بلا روخ ٹوک قتل کا دروازہ کھل جائے گا اور با اثر اور مقتدر طبقہ اپنے مخالفین کو ٹھکانے لگانے کے لئے اس کا سہارا لے گا۔

امیر جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ تحفظ پاکستان بل ملک میں غیر اعلانیہ مارشل لاء لگانے اور جمہوریت کا چہرہ مسخ کرنے کے مترادف ہے، جسے عدالت عظمٰی کو کسی صورت قبول نہیں کرنا چاہیئے۔

انہوں نے کہا کہ ملک بھر کی سیاسی جماعتیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس بل کے خلاف آواز اٹھائیں۔

تبصرے (0) بند ہیں