پی ٹی آئی کا ’ایوان کے اندر تبدیلی‘ کا فارمولہ

26 اگست 2014
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم کے ساتھ ملاقات کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے بات کررہے ہیں، اس موقع پر پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی، خیبر پختونخوا کے وزیراعلٰی پرویز خٹک، جبکہ جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ بھی ہمراہ کھڑے ہیں۔ —. فوٹو آن لائن
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم کے ساتھ ملاقات کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے بات کررہے ہیں، اس موقع پر پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی، خیبر پختونخوا کے وزیراعلٰی پرویز خٹک، جبکہ جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ بھی ہمراہ کھڑے ہیں۔ —. فوٹو آن لائن

اسلام آباد: حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان تصفیہ کی کوششوں کے دوران قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے سربراوں نے پیر کے روز ’’ایوان کے اندر تبدیلی‘‘ کے لیے پی ٹی آئی کے فارمولے پر اس کی حمایت پر تبادلۂ خیال کیا۔

پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کی قیادت نے حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ان کے سامنے اپنے نئے پلان آف ایکشن کو پیش کرنے کافیصلہ کیا ہے۔

جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے پی ٹی آئی کے ان مذاکرات کاروں کے ساتھ تفصیلی تبادلۂ خیال کیا، جو حکومت کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہیں۔

پی ٹی آئی کے مذاکرات کاروں کے ساتھ سراج الحق کی یہ ملاقات پارٹی کے جنرل سیکریٹری جہانگیر ترین کی رہائشگاہ پر ہوئی۔

اس ملاقات کے بعد شام کو پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے ساتھ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی ٹیلی فونک بات چیت ہوئی۔

جماعت اسلامی کے امیر سے ملاقات کے بعد پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی نے میڈیا کے نمائندوں کے ساتھ بات کرتے ہوئے اپنی پارٹی کے اس عزم کو دہراتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنے حقیقی مطالبات سے پیچھے ہٹنے میں کافی لچک کا مظاہرہ کیا ہے، اور اب حکومت کی باری ہے کہ وہ اپنا ردّعمل پیش کرے۔

انہوں نے کہا’’ہم اس سے زیادہ پیشکش کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔‘‘

حکومت کے ساتھ مذاکرات سے قبل پی ٹی آئی کے بنیادی مطالبات تھے کہ وزیراعظم استعفیٰ دیں، اس کے بعد اسمبلیاں تحلیل کی جائیں، اور ایک قومی حکومت قائم کی جائے جو مبینہ انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کرے اور وسط مدتی انتخابات کا انعقاد کروائے۔

تاہم ہفتے کی رات مذاکرات کے تیسرے مرحلے کے اختتام کے بعد، پی ٹی آئی نے وزیراعظم کے صرف تیس دن کے لیے استعفے کی تجویز پیش کر دی۔

پی ٹی آئی کے فارمولے کے مطابق حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے وزیراعظم کی غیرموجودگی میں کابینہ میں کسی تبدیلی کے بغیر کسی کو بھی وزیراعظم بنایا جاسکتا ہے۔

حکومت کے ساتھ مذاکرات بحال ہونے کے امکان پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کے ردّعمل کا انتظار کررہی ہے۔

تاہم مسلم لیگ ن کی جانب سے شروع کی جانے والی پی ٹی آئی کے مطالبات کے خلاف ریلیوں کے انعقاد سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ محاذ آرائی کی راہ پر چل پڑی ہے۔

جماعت اسلامی کے سربراہ، جو ملک میں جاری سیاسی تعطل کے ایک پُرامن حل کے لیے پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کررہے تھے، نے کہا کہ انہوں نے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ہے، اور وہ دیگر جماعتوں پر بھی زور دیں گے، کہ وہ آگے بڑھیں اور اپنا کردار ادا کریں۔

سراج الحق نے کہا ’’میں خوش ہوں کہ عمران خان نے لچک کا مظاہرہ کیا ہے اور حکومت نے سوائے وزیراعظم کے استعفے کے پی ٹی آئی کے تمام مطالبات تسلیم کرلیے ہیں۔ ہم اب بھی کوشش کرکے درمیانی راہ تلاش کرسکتے ہیں۔‘‘

جماعت اسلامی کے رہنما نے یہاں تک دعویٰ کیا کہ ان کے پاس ایک ترکیب ہے جو اس بحران کو حل کرسکتی ہے، لیکن انہوں نے اس ترکیب کو میڈیا کے سامنے بیان کرنے سے انکار کردیا۔ ’’میں جلد ہی حکومتی وفد کے ساتھ ملاقات کروں گا۔ پہلے مجھے ان کو اس پر قائل کرنے دیں، پھر میں اس کو میڈیا کے سامنے بھی پیش کردوں گا۔‘‘

سراج الحق نے ایک مرتبہ پھر وعدہ کیا کہ وہ حکومت اور احتجاجی جماعتوں کے درمیان ایک معاہدی کی خوشخبری دیں گے۔

پی ٹی آئی کے ایک ذرائع کے مطابق سابق صدر زرداری کے ساتھ اپنی ٹیلی فونک بات چیت کے دوران عمران خان نے ان پر واضح کیا کہ ان کی پارٹی کس وجہ سے وزیراعظم کے ایک مہینے کے لیے استعفے پر زور دے رہی ہے۔

دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والے تبادلۂ خیال کی وضاحت کے لیے پی ٹی آئی کی سیکریٹری اطلاعات ڈاکٹر شیریں مزاری سے رابطہ نہیں ہوسکا، لیکن پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کے ایک رکن نے بتایا کہ عمران خان نے پیپلزپارٹی کے رہنما کو دوٹوک الفاظ میں واضح کردیا کہ آزادی مارچ اس وقت تک جاری رہےگا، جب تک کہ اس کے مقاصد حاصل نہیں ہوجاتے۔

انہوں نے کہا کہ اگر پیپلزپارٹی پی ٹی آئی کی ایوان کے اندر تبدیلی کی تجویز پر اتفاق کرتی ہے تو حکومت پر ایک بھاری دباؤ پڑے گا۔ اسی طرح کا پیغام ایم کیو ایم کی قیادت کو بھی دیا گیا ہے۔

وزیراعظم کے آفس سے قریب مسلم لیگ ن کے ایک ذریعے نے ڈان کو بتایا کہ حکومت وزیراعظم کے استعفے کے علاوہ پی ٹی آئی کے تمام مطالبات پر بات چیت کے لیے تیار ہے۔

انہوں نے کہا ’’پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں نمائندگی رکھنے والی سیاسی جماعتوں کی غیر مشروط حمایت حاصل ہے، اس لیے وزیراعظم کہیں نہیں جارہے ہیں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے لیے دروازے کھلے رہیں گے، لیکن جہاں تک وزیراعظم کے استعفے کا تعلق ہے، تو اس پر نواز شریف خود ہی فیصلہ کرسکتے ہیں، اس لیے کہ پارٹی کے اندر کوئی بھی ان سے اس پر غور کرنے کے لیے کہنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔

تبصرے (0) بند ہیں