اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی زندگی کو لاحق خطرات کی اطلاعات ملنے کے بعد ان کے کنٹینر کے اردگرد سیکیورٹی مزید سخت کردی گئی۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ خطرات کی سنگینیوں کے پیش نظر دارالحکومت کی انتظامیہ اور پولیس نے دھرنے کے منتظمین سے کہا ہے کہ وہ ان کے سیکیورٹی کو مزید مضبوط بنائیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ’’پولیس نے منتظمین کو خار دار تار فراہم کردیے ہیں، جنہوں نے پہلے ہی گیلوینائزڈ اسٹیل کی شیٹس کنٹیر کے اردگرد لگادی ہیں۔‘‘

یہ سیکیورٹی اقدامات کل دوپہر کو سخت کردیے گئے، ساتھ ہی سیکیورٹی کے فرائض انجام دینے والے پی ٹی آئی کے کارکنوں نے کنٹینر کے اردگرد کی جگہ کو پُر کردیا۔

اس سے پہلے کنٹینر اور اس کے ملحقہ علاقوں کو لوہے کی سلاخوں کے فریم کے ذریعے گھیرے میں لے لیا گیا تھا۔

حکام کا کہنا ہے کہ اسٹیل کی شیٹس لوہے کی سلاخوں کے فرہم پر نصب کی گئی تھیں، تاکہ سلاخوں کے درمیان کے خلاء کو پُر کرکے اندرونی راستے کو بند کیا جائے۔ مزید یہ کہ خار دار تاریں بھی کنٹینر کے سامنے لگائے گئے فریم کے اردگرد لپیٹ دی گئی تھیں۔

اس کے علاوہ کنٹینر کے اردگرد پولیس کی نفری میں بھی اضافہ کردیا گیا تھا۔

پولیس اسٹیشنوں پر افرادی قوت کی کمی کی وجہ سے پیر کی صبح ایک ہزار پولیس اہلکاروں کو دھرنے کے مقام سے واپس بلوا لیا گیا تھا۔

لیکن بعد میں پولیس اہلکاروں کو تین ہزار اضافی نفری کے ساتھ تعینات کردیا گیا۔

انہوں نے کہا ’’موجودہ صورتحال میں رپورٹنگ روم کا اسٹاف ہی پولیس اسٹیشنوں پر شہریوں کی سہولت کے لیے دستیاب ہے۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ یہ اسٹاف بھی ناکافی ہونے کی وجہ سے چوبیس گھنٹے کام کررہا ہے۔

کیپیٹل پولیس کے حکام اور وزارتِ داخلہ کا کہنا ہے کہ عمران خان کی زندگی کو لاحق خطرات کے بارے میں پاکستان کے ایک دوست ملک نے اطلاع دی تھی۔

کہا گیا ہے کہ ایک پڑوسی ملک کی انٹیلی جنس ایجنسی نے پی ٹی آئی کے سربراہ کے قتل کا منصوبہ بنایا ہے۔

اسی دوران شاہراہ دستور پر اس وقت کشیدگی پھیل گئی، جب پاکستان عوامی تحریک کے دھرنے کے شرکاء کے لیے کھانا لانے والی گاڑیوں کو پولیس نے روک دیا۔

تاہم جلد ہی سو سے ڈیڑھ سو کے قریب پی اے ٹی کے اہلکار کیبینٹ بلاک پہنچ گئے اور پولیس کو مجبور کیا کہ وہ ان گاڑیوں کو دھرنے کے مقام پر داخل ہونے دے۔

ایک پولیس اہلکار نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھنے کی درخواست کے ساتھ بتایا کہ ان گاڑیوں کو یہ دیکھنے کے لیے روکا گیا تھا کہ پی اے ٹی کے کارکنان کس طرح کا ردّعمل ظاہر کرتے ہیں، تاکہ اگر حکومت پولیس کو ان کے خلاف کارروائی کا حکم دیتی ہے تو اس کے لیے ایک منصوبہ تیار کیا جاسکے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں