اجنبی سرزمین پر خطرات سے دوچار زندگی

19 ستمبر 2014
بحرین پولیس کے اہلکار پُرتشدد فسادات میں احتجاجی مظاہرین کا مقابلہ کرنے کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں، بحرین کی پولیس اور شاہی افواج میں پاکستانیوں کی بڑی تعداد کو بھرتی کیا گیا ہے۔ —. فائل فوٹو اے پی
بحرین پولیس کے اہلکار پُرتشدد فسادات میں احتجاجی مظاہرین کا مقابلہ کرنے کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں، بحرین کی پولیس اور شاہی افواج میں پاکستانیوں کی بڑی تعداد کو بھرتی کیا گیا ہے۔ —. فائل فوٹو اے پی

یہ قبرستان خان ریسرچ لیبارٹریز کے نزدیک واقع ہے، جہاں پاکستان نے اپنے نیوکلیئر بم تیار کیے تھے۔

اس کے علاوہ یہ اسلام آباد کے بے نظیر بھٹو انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے بھی قریب ہے، جہاں سے ہزاروں غریب پاکستانی خلیجی ریاستوں میں اپنے خون پسینے کی محنت کے اچھے معاوضے کی تلاش میں جاتے ہیں۔

یہ قبرستان بھی دوسرے بے شمار قبرستانوں سے مختلف نہیں ہے۔ یہاں ہزاروں قبریں، جن میں سے بہت سی پختہ ہیں، کچھ پر ماربل کے ٹائلیں اور کتبے لگے ہوئے ہیں، کچھ مٹی سے بنائی گئی ہیں، ان پر جنگلی گھاس اُگ آئی ہے۔کچھ بہت پرانی ہیں، اور غفلت کی وجہ سے منہدم ہوگئی ہیں، جبکہ کچھ تازہ ہیں۔

ان میں سے ایک قبر مارچ کے دوران بحرین میں ہلاک ہونے والے بائیس سالہ خاور کی قبر بھی ہے۔

خاور ایک سپاہی کی طرح لڑنا چاہتا تھا۔ لیکن وہ ایک بم حملے میں وہ بھی ایک غیرملکی سرزمین پر ہلاک ہوگیا تھا۔

یہ بم بحریک کے دارالحکومت منامہ میں نصب کیا گیا تھا، جس نے اس کی گاڑی کو نشانہ بنایا۔

خاور ان سینکڑوں پاکستانیوں میں سے ایک تھا، جنہیں بحرینی حکومت کی جانب سے حال ہی میں بدامنی کے خاتمے کے لیے اس کی سیکورٹی فورسز میں بھرتی کیا گیا تھا، بدامنی کا سلسلہ اس وقت بھی جاری تھا اور اس وقت بھی جاری ہے، جو بحرین کی اکثریتی شیعہ آبادی کی جانب سے شروع کیا گیا تھا، یہ لوگ حکمران شاہی خاندان کے خلاف مزاحمت کررہے ہیں جس کا تعلق سنی اقلیت سے ہے۔

پاکستانی، خصوصاً سنّی مسلک کے سابق فوجی بحرینی حکمرانوں میں بہت مقبول ہیں۔ وہ وطن میں مقیم اپنے غریب خاندانوں کی خاطر بہتر معاوضہ حاصل کرنے کے لیے لڑنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔

خاور کے والد منامہ میں ایک سرکاری دفتر میں ملازم تھے اور ان کا خاندان بھی وہیں پر آباد ہوگیا تھا۔

لہٰذا جب ایک سپاہی بننے،سجی سجائی یونیفارم پہننے اورخاصی بڑی رقم تنخوا کی صورت میں کمانے کا موقع اس کے سامنے آیا، تو اس نے اس کو حاصل کرلیا۔

اس نے سیکورٹی سروس کے لیے درخواست دے دی۔

اس کے پاکستانی اور سنّی پس منظر نے اس کے لیے کام کیا، اور اس نے یہ ملازمت حاصل کرلی۔ اس کی تنخواہ ایک لاکھ پاکستانی روپے سے خاصی زیادہ تھی، اور کام بھی ایسا کوئی مشکل نہیں تھا۔

لیکن پھر موت نے اس کو شکار کرلیا گیا۔

اس کے کزن کا راشد محمود کہنا تھا ’’اس کے والد اس کی موت کی وجہ سے خاصے پریشان ہیں، وہ اس کے بارے میں کوئی بات نہیں کریں گے۔‘‘

انہوں نے کہا ’’خاور کا خاندان اس کی تدفین کے لیے یہاں آیا تھا، چند دن قیام کیا،اور پھر واپس چلا گیا۔ یہ واقعہ بہت اچانک اور بہت زیادہ افسوسناک تھا کہ ہم اس کے والدین سے اس کی ملازمت کے بارے میں کوئی بات نہیں کرسکے۔ ہمارے ذہنوں میں اس طرح کے سوالات تھے، کہ آخر وہ بحرینی سیکورٹی فورس میں کیوں بھرتی ہوا۔ اس نے پاکستانی فوج میں شمولیت اختیار کیوں نہیں کی۔‘‘

راشد محمود نے بتایا ’’میرے انکل اپنے بیٹے کی ملازمت کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات ظاہر کرنا نہیں چاہتے تھے۔ ہم نے بھی اصرار نہیں کیا۔ ہم نے تعزیت کی اور پھر وہ چلے گئے۔‘‘

جب نمائندہ ڈان نے راشد محمود سے ان کے انکل سے ٹیلی فون پر بات کرنے لیے کہا تو انہوں نے خبردار کیا ’’مہربانی کرکے کچھ نہ پوچھیں۔ اس کے والد سے بات کرنے کے بارے میں سوچیں بھی نہیں۔ وہ اب بھی اپنے بیٹے کو اس ملازمت کی اجازت دینے پر صدمے کی حالت میں ہیں۔‘‘

پاکستانی فوج کے ایک سینئر ریٹائرڈ جنرل، جو پاکستان کی اسٹریٹیجک سیکورٹی کی تیاری میں کام کرنے والے دماغوں میں سے ایک ہیں، اور آج کل سابق فوجیوں کو بیرون ملک بھیجنے کا ایک ادارہ چلا رہے ہیں، ان کا خیال ہے کہ پانچ ہزار سے زیادہ پاکستانی گارڈ بحرین چلے گئے ہیں۔

2011ء میں مصر کے انقلاب کے بعد جب بحرینی حکومت کے لیے خطرات بڑھ رہے تھے، تو اس وقت یہ بھرتی اپنے عروج پر تھی۔

ریٹائرڈ جنرل نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ’’پاکستانی کمیونٹی کے خلاف ردّعمل پیدا ہونے کے بعد اس بھرتی کو روک دیا گیا تھا۔‘‘

پاکستانیوں کے خلاف حالیہ برسوں کے دوران مقامی لوگوں کی جانب سے تشدد کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے، جس میں بہت سے پاکستانی ہلاک ہوچکے ہیں۔

فوج سے متعلق دو ادارے جو سابق فوجیوں کو ان ملازمتوں کے لیے بحرین بھیج رہے تھے، کے اہلکاروں نے اپنے لب سی لیے ہیں۔

لیکن اس معاملے سے باخبر لوگوں کا کہنا ہے کہ آخری کھیپ کی اس سال مارچ میں بھرتی کی گئی تھی۔

بحریہ فاؤنڈیشن کے بھرتی کے شعبے کے جنرل مینیجر اظہر اقبال نے بتایا ’’ہم بھرتیوں کا انتظام کرتے ہیں اور لوگوں کو بحرین بھیجتے ہیں، جب وہاں ان کی ضرورت ہوتی ہے۔ فی الحال وہاں اسی کوئی طلب نہیں ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کسی قسم کا تبصرہ کرنے سے انکار کردیا، اور کہا ’’مہربانی کرکے پاکستانی بحریہ کے شعبہ تعلقات عامہ سے رجوع کیجیے۔‘‘

لیکن پاکستانی بحریہ کے ترجمان نے بتایا کہ بحریہ فاؤنڈیشن کا بھرتی سے متعلق دفتر باضابطہ طور پر پاکستانی بحریہ کے ماتحت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا ’’ان کا اپنا مواصلاتی ونگ ہے، اور انہیں آپ کے سوالات کا خود جواب دینا چاہیے۔‘‘

فوجی فاؤنڈیشن کے بھرتی کے شعبے کے ایک سینئر عہدے دار کرنل مسعود نے یہ کہتے ہوئے تبصرے سے انکار کردیا کہ ان سے مناسب سرکاری چینلز کے ذریعے رابطہ کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا ’’میں اس وقت تک اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گا، جب تک مجھے معلوم نہ ہوجائے کہ آپ کون ہیں اور یہ سوالات آپ کیوں پوچھ رہے ہیں۔‘‘

دفترِ خارجہ حکومت کا ایسا اعلٰی ترین ادارہ ہے، جو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے معاملات کو دیکھتا ہے، وہ بھی اس طرح کے معاملات کے بارے میں کوئی معلومات دینے پر راضی محسوس نہیں ہورہا تھا۔

دفترِ خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے کہا ’’ہزاروں لوگ خلیج میں کام کرنے کے لیے گئے ہیں۔ ہم لوگوں کو دوسرے ملکوں کی سیکورٹی فورسز میں کام کرنے کے لیے نہیں بھیج رہے ہیں۔ لہٰذا میں اس معاملے سے بے خبر ہوں۔‘‘

لیکن ضلع اٹک کے ایک رہائشی، جو منامہ میں بحرینی شاہی افواج میں ایک سپاہی کی حیثیت کام کرتے ہیں، کا کہنا ہے کہ پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے، جنہیں بحرین کی سیکورٹی فورسز میں بھرتی کیا گیا ہے۔

انہوں نے نمائندہ ڈان سے منامہ سے ایک بات چیت کے دوران بتایا ’’ہزاروں پاکستانی بحرین کی پولیس اور شاہی افواج میں کام کررہے ہیں۔ میں تقریباً دوسال قبل بھرتی ہوا تھا۔‘‘

انہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست بھی کی۔

انہوں نے کہا کہ ’’ہم سب یہاں اس طرح کی ملازمت میں کام کرنے لیے آئے ہیں، اس لیے کہ ہمیں یہاں شاندار ادائیگی کی جارہی ہے۔ ہم محض پندرہ دن کام کرکے لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ پاکستانی روپے کمالیتے ہیں۔ یہ ملازمت بہت خطرناک ہوجاتی ہے، جب پُرتشدد احتجاج بھڑک اُٹھتا ہے، لیکن وہاں پاکستان میں بھی خطرات موجود ہیں۔ یہاں کم سے کم ہم وطن میں موجود اپنے خاندان کے لیے اچھی رقم تو کمارہے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر ہم دوسرے ملک میں ہلاک بھی ہوجاتے ہیں، تو کیا ہوا؟ ہم پاکستان میں بھی تو ایسے ہی بم دھماکے میں مرسکتے ہیں۔ ہزاروں لوگ اس طرح کے حملوں میں پہلے ہی مرچکے ہیں۔ کم از کم ہم یہاں مرنے سے پہلے اپنے بچوں کے لیے بھاری مقدار میں رقم تو بھیج سکتے ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا ’’اپنے ملک میں ہمیں کچھ بھی نہیں ملے گا۔‘‘

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں