ملالہ یوسفزئی ۔ امید کی ایک چھوٹی مگر روشن کرن

اپ ڈیٹ 11 اکتوبر 2014
فوٹو بشکریہ ٹائم ڈاٹ کام
فوٹو بشکریہ ٹائم ڈاٹ کام

کوئی ڈیڑھ سال پہلے سوشل میڈیا پر پڑھے لکھے مگر قدرے گرم خون نوجوانوں سے بحث ہو رہی تھی۔ بحث کا موضوع 'ملالہ یوسفزئی' تھا۔ اکثریت کا خیال تھا کہ یہ سب مغربی سازش ہے تاکہ پاکستانی معاشرے کو بدنام کیا جاسکے اور اسے ایک دہشتگرد ملک ثابت کیا جاسکے۔ ایک حضرت نے بڑے جوش کے ساتھ یہ تک فرما دیا کہ دیکھنا یہ ملالہ کچھ ہی عرصے بعد مغربی لباس نظر آئے گی اور ہم سب کے چہروں پر کالک ملے گی (الفاظ تو ان صاحب کے کچھ اور تھے مگر مفہوم شریفانہ انداز میں یہی بنتا تھا)۔

آج ملالہ یوسفزئی کے لیے امن کے نوبل انعام کی خبر سن کر دل خوشی سے پھولا نہ سمایا۔ میڈیا پر ہر جگہ مشرقی لباس میں ملبوس سادہ مگر پروقار اور با اعتماد ملالہ کو دیکھ کر مجھے ڈیڑھ سال پرانے یہ الفاظ یاد آگئے۔ دل کرتا ہے کہ اس شخص کو ڈھونڈ کر نکالوں اور سوال کروں اب بتاؤ کیا ملالہ نےاپنی مشرقی پہچان اتار پھینکی ہے؟ کیا اس نوبل انعام سے ہم پاکستانیوں کے چہروں پر کالک پت گئی ہے؟


کوئز: آپ ملالہ کو کتنا جانتے ہیں؟


خیر سے مجھے امید ہے کہ میرے وہ جوشیلے دوست اس میں بھی کوئی نہ کوئی منفی نکتہ ڈھونڈ نکالیں گے۔ فی الوقت ملک بھر میں اور بیرون ملک ایک بڑی تعداد میں پاکستانی اب بھی ملالہ کو پاکستان کی پہچان ماننے سے انکاری ہے اور اس کے خلاف نفرت کا زہر اگل رہے ہیں۔

پاکستانی قوم کی یہ خاصیت ہے کہ بطور ایک جوہری ہم ہمیشہ اپنی گدڑی میں چھپے جواہر کی بے توقیری ہی کرتے آئے ہیں، اسی لیے ہمارے دامن آج جھوٹی چمک والے پیتلوں سے بھری پڑی ہے۔


“Let us pick up our books and pens. They are our most powerful weapons”.“One child, one teacher, one pen and one book can change the world”.

" آئیے اپنی کتابیں اور قلم اٹھائیں۔ یہ ہمارے سب سے طاقتور ہتھیار ہیں"۔ "ایک بچہ، ایک استاد، ایک قلم اور ایک کتاب دنیا بدل سکتے ہیں"۔


عزم حوصلے اور استقلال سے بھرے یہ سادہ سے الفاظ بھلے کسی امریکی قلم سے لکھے گئے ہوں لیکن انہیں ادا کرنے والی کی سچائی اور حب الوطنی پر شک کیا جانا زیادتی ہے۔ ہم میں سے کتنے ہی ہیں جو سترہ سال کی عمر میں میٹرک تک پاس نہیں کرپاتے ایسے میں ملالہ کے لیے یہ اعزاز پاکستان کے لیے باعث فخر ہے۔

قوم کی اس بہادر بیٹی کے یہ الفاظ اس کے چٹان جیسے پختہ عزم کا منہ بولتا ثبوت ہیں؛

'میرے پاس دو راستے تھے: یا تو میں خاموش رہوں اور ماری جاؤں یا پھر آواز اٹھاؤں اور قتل کر دی جاؤں، میں نے دوسرا راستہ چُنا۔'

ملالہ نے فقط بچوں خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم کے لیے آواز ہی نہیں اٹھائی بلکہ اس کے مخالفوں کے خلاف علم جنگ بلند کیا۔ آخر ہم کب تک اپنے محسنوں کی قربانیوں کو جھٹلاتے رہیں گے؟


پڑھیے: ملالہ اور کیلاش ستیارتھی نے امن کا نوبیل انعام جیت لیا


ملالہ کی یہ جیت صرف طالبان کے لیے نہیں بلکہ ان جاگیرداروں اور سماج کے ٹھیکیداروں کے لیے بھی ایک پیغام ہے جو پاکستان کی غریب عوام کو تعلیم کے حق سے محروم رکھتے ہیں جو نہیں چاہتے کہ پاکستانی عوام تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو کیونکہ اس طرح ان کی بادشاہت ختم ہوجائے گی، لوگوں میں شعور پیدا ہوگا۔ تعلیم عام ہوگی تو سیاست دانوں کے ووٹ بینک چھن جائیں گے۔ غریب اور لاچاروں کے نام پر پھر کوئی سیاست نہیں کھیل سکے گا۔ روٹی، کپڑا اور مکان، تبدیلی ، سونامی یا نیا پاکستان جیسے کھوکھلے نعرے نہیں چلیں سکیں گے۔

ایسے لیڈروں سے گزارش ہیں کہ سترہ سالہ اس بچی سے سبق سیکھیں جس نے پاکستان کو اپنے عزم اور حوصلے سے پوری دنیا کے آگے سرخرو کیا ہے اور اس کے لیے اس نے نہ ہی عوامی لیڈر ہونے کا سوانگ رچایا اور نہ ہی پنڈال سجائے فقط یقین محکم کے بل بوتے پر آج دنیا کی کم عمر ترین نوبل انعام یافتہ بن گئی ہے۔

اس سال امن کا نوبل انعام ملالہ نے اکیلے نہیں جیتا بلکہ اس کے ساتھ ہندوستان سے تعلق رکھنے والے بچوں کے حقوق کے کارکن کیلاش ستیارتھی بھی شریک ہیں۔ کیلاش ستیارتھی کو انسانیت کی خدمت اور مختلف حالات کے شکار اسی ہزار بچوں کو ان کے حقوق دلانے کے صلے میں یہ اعزاز دیا گیا ہے۔ ان کی 'بچپن بچاؤ تحریک ' انڈیا میں چائلڈ لیبر اور چائلڈ ٹریفکنگ کے خلاف گزشتہ تیس سالوں سے کام کر رہی ہے۔

ایسے حالات میں جبکہ پاکستان اور ہندوستان کے مابین صورتحال گھمبیر ہے، دونوں ممالک کے نمائندوں کا نوبل اعزاز حاصل کرنا خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس موقع پر ایک بار پھر ملالہ یوسفزئی نے قوم کی بیٹی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے دونوں ممالک کے وزراء کو دسمبر میں منعقد ہونے والی نوبل ایوارڈ تقریب میں شرکت کی دعوت دی ہے تاکہ دونوں پڑوسیوں کے درمیان امن و صلح کی فضا ہوسکے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اپنے وطن سے دور ہونے کے باوجود ہماری ننھی ایکٹوسٹ ملکی حالات سے بےخبر نہیں۔


مزید پڑھیے: 'نوبل انعام دینے کی تقریب میں مودی اور نواز ساتھ ساتھ ہوں'


دو مختلف ممالک اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے نوبل انعام، دنیا کی تاریخ میں ایک ٹرننگ پوائنٹ ہے۔ اس موقع کو بنیاد بنا کر دونوں ممالک کی عوام خصوصاً نوجوان نسل کو چاہیے کہ سرحدوں کے اختلاف کو بھلا کر تعلیم عام کرنے کے لیے مشترکہ کوششوں کا آغاز کریں تاکہ انتہا پسندی کا مقابلہ کیا جاسکے۔

ملالہ اور اس جیسے لاتعداد روشنی کے مینار ہی وہ قوم کے معمار ہیں جو مستقبل میں اس خطّے میں کچھ 'تبدیلی' لا سکتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

SaminaRizvi Oct 12, 2014 07:18pm
We are glad that Malala received Nobel peace prize.We congratulate her but we also expect a lot from her as it is an opportunity which is almost impossible for any one to avail.I request Malala to raise voice for the girls like MEHZER ZEHRA ,who was targeted while on her way to school and as a result she lost her father and was critically injured.No body knows how is she now.She is just a girl like Malala. but her father is not there to support her.She is not supported by any group or community neither the government had done any thing to console her family.You are lucky Malala that one bullet opened the doors of wealth & prosperity to you but there are many girls like Mehzer Zehra ,who are lying paralyzed in hospitals or homes,waiting for a God Father or a miracle to happen. You say that you want to be a politician,wish you luck and prayers for your long life as any change in our Feudal Democratic Politics is hardly accepted.
Sana Ashraf Oct 13, 2014 11:00am
@SaminaRizvi: well said
Javaid Mohyuddin Oct 13, 2014 01:30pm
Dear Malala, Aslam O Alaikum. I salute your courage and bravery.I wish you were my daughter.After all you are my daughter.Daughter do not have to be biological.Daughter could be spiritual and inspirational as well. 180 Millions people are saluting you & I am standing with them proudly because you are my daughter.And daughter of Pakistan.Please don't be discourage if very few people thinking negatively about you.One day they will start thinking positively. Insha Allah