اسلام آباد: بلوچستان میں سیکورٹی کی متغیر صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سینٹروں نے جمعیت علمائے اسلام فضل کے سربراہ مولانا فضل الرحمان پر خودکش حملے اور کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے لوگوں کے قتل پر ملک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو موردِ الزام ٹھہرایا۔

جے یو آئی ایف کے سربراہ پر خودکش حملے پر ہونے والی ایک مختصر بحث کے دوران متحدہ قومی موومنٹ کے طاہر مشہدی نے واضح کیا کہ مولانا پر یہ حملہ ’’انٹیلی جنس کی ناکامی‘‘ کا ایک نتیجہ تھا۔

کوئٹہ کے واقعات پر یہ بحث ایوان میں کل اس وقت شروع ہوئی جب مغرب کی نماز کے لیے بیس منٹ کے وقفے کے بعد ایوان کی کارروائی کا دوبارہ آغاز ہوا۔ اراکین سینیٹ کو اس دوران ٹی وی چینلز کے ذریعے مولانا پر حملے کے بارے میں علم ہوا۔

اس سے قبل اسی روز کچھ نامعلوام مسلح افراد نے شہر کے ہزارہ گنجی علاقے میں شیعہ ہزارہ برادری کے آٹھ افراد کو قتل کردیا تھا۔

ایم کیو ایم کے رہنما نے الزام عائد کیا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کے بارے میں مکمل معلومات ہونے کے باوجود ان کے خلاف کارروائی نہیں کررہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ کالعدم تنظیمیں اب کھلے عام ملک کے شہری علاقوں میں کام کررہی ہیں۔

طاہر مشہدی نے کہا کہ ’’اگر کراچی، اسلام آباد اور پشاور میں اگر آپریشن نہیں شروع کیا گیا تو ہم اسی طرح لاشیں اُٹھاتے رہیں گے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناک کے نیچے مختلف شہروں میں کالعدم گروپس کےعسکریت پسند اغوا، ڈکیتیوں اور بھتہ خوری میں ملؤث ہیں۔

پیپلزپارٹی کے بزرگ رہنما تاج حیدر نے بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں انٹیلی جنس اداروں کے کردار کو تنقید کا نشانہ بنایا۔انہوں نے کہا کہ ’’ملک میں 26 انٹیلی جنس ادارے کام کررہے ہیں، اور ان میں سے زیادہ تر (ایجنسیوں) نے دہشت گرد پیدا کیے ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ اس عمل کا اب خاتمہ ہونا چاہیے۔ یہ دہشت گرد اب اس قدر طاقتور ہوگئے ہیں کہ وہ اب ریاست کی منظم فورس کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔

تاج حیدر نے کہا ’’اگرچہ حکومت اور ریاستی اداروں میں موجود کچھ گروپس ان عسکریت پسندوں کی سرپرستی کررہے ہیں، جبکہ قوم نے عسکریت پسندی سے مقابلہ کرنے کا تہیہ کرلیا ہے۔‘‘

پیپلزپارٹی کے پارلیمانی رہنما رضا ربّانی کا کہنا تھا کہ عسکریت پسندوں نے اے این پی، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کو گزشتہ سال اپنی انتخابی مہم چلانے نہیں دی۔ ان کا خیال تھا کہ صرف ان سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنایا جارہا تھا، جو طالبان کی مخالف اور آئین کی بالادستی کی بات کرتی ہیں۔

رضا ربّانی نے بہتر انٹیلی جنس اشتراک کے طریقہ کار کا مطالبہ کیا، جس کے بغیر ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی نہیں جاسکتی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایسی قوتیں جو بلوچستان کو ’’غیر مستحکم‘‘ کرنا چاہتی ہیں کوئٹہ میں جمعرات کے حملوں کی پشت پناہی کررہی تھیں۔

پیپلزپارٹی کے ایک اور سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں یہ حملے عسکریت پسندی سے مقابلہ کرنے کے لیے حکومت کی ’’غیر واضح اور ناقص پالیسی‘‘ کا نتیجہ تھے۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ جنوبی پنجاب کے عصمت اللہ معاویہ نے حال ہی میں اعلان کیا تھا کہ انہوں نے اپنی بندوقوں کا رُخ افغانستان کی جانب کرلیا ہے، لیکن پاکستانی حکومت کا کوئی ردّعمل سامنے نہیں آیا تھا۔

فرحت اللہ بابر نے صوبائی حکومت پر بھی جنوبی پنجاب میں عسکریت پسند گرہوں کی ’’پشت پناہی‘‘ کا الزام عائد کیا۔

اے این پی کے حاجی عدیل نے کہا کہ آزاد خیال اور معتدل سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنانے کے بعد اب عسکریت پسندوں نے مذہبی جماعتوں پر بھی حملے شروع کردیے ہیں۔

اسی جماعت کے زاہد خان نے پاکستان تحریک انصاف کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کو روکنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کررہی ہے۔

انہوں نے نام لیے بغیر الزام عائد کیا ’’اب ہم کیا کہہ سکتے ہیں کہ جب پی ٹی آئی کے وزراء خود بھی دہشت گردوں کو بھتّہ ادا کررہے ہیں؟‘‘

زاہد خان نے کہا کہ اگرچہ امن و امان کا قیام صوبائی معاملہ ہے، لیکن وفاقی حکومت محض انٹیلی جنس کے اشتراک کے بعد خود کو اپنی ذمہ داری سے مبّرا قرار نہیں دے سکتی۔

انہوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’کیا جے یو آئی ایف کے سربراہ پر حملے کے بارے میں کوئی انٹیلی جنس اطلاعات نہیں تھیں؟‘‘

زاہد خان نے افسوس کا اظہار کیا کہ سیاستدان عسکریت پسندی کے معاملے پر متحد نہیں ہیں، اس لیے کہ یہاں اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں، جو دہشت گردوں کے لیے اپنے دلوں میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔

مسلم لیگ ق کے کام علی آغا نے ان واقعات کو خطرے کی گھنٹی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ انٹیلی جنس اشتراک کے ناقص طریقہ کار کا نتیجہ ہے۔

انہوں نے مولانا پر خودکش حملے کو ملک کی پوری سیاسی قیادت پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ بلوچستان میں ایک دن کے واقعات میں تیسرا اہم واقعہ تھا۔

کامل علی آغا نے کہا کہ چند دن پہلے پنجاب سے تعلق رکھنے والے چار مزدوروں کو ان کے شناختی کارڈوں کے ذریعے ان کی پہچان کرنے کے بعد انہیں گولی ماردی گئی تھی۔

جے یو آئی ایف کے اقلیتی رکن ہیمن داس نے اپنی پارٹی کے سربراہ پر اس حملے کو صوبائی حکومت کی سنگدلی کا نتیجہ قرار دیا، جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس نے ایک بڑے سیاسی اجتماع کے لیے مناسب سیکورٹی انتظامات نہیں کیے تھے۔

حزب اختلاف کے رہنما اعتزاز احسن نے تجویز دی کہ حکومت ہر دو یا تین مہینوں کے بعد سیکورٹی صورتحال پر اراکین پارلیمنٹ کے لیے بریفنگ کا انتظام کرے۔

قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے بلوچستان میں ہوئے ان حملوں کے پسِ پردہ بین الاقوامی سازش دیکھتے ہوئے کہا کہ ’’کچھ ممالک نہیں چاہتے کہ پاکستان میں امن قائم رہے۔‘‘

راجہ ظفر الحق نے کہا کہ عسکریت پسند سنیوں، شیعہ، مسیحیوں، سکھوں اور ہندوؤں سمیت ہر ایک کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی ایک قومی المیہ اور قومی چیلنج ہے۔

مسلم لیگ ن کے رہنما نے افسوس کا اظہار کیا کہ اس حقیقت کے باوجود کہ پاکستانی قوم دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے، بین الاقوامی برادری اسے دہشت گردی پیدا کرنے والا ملک سمجھتی ہے۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ انٹیلی جنس اداروں پر دہشت گردی سے مقابلے کا اہم بوجھ ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے پہلے ہی انٹیلی جنس اداروں کے مابین رابطوں کو بہتر بنانے کے لیے کہا تھا، اور اعلان کیا تھا کہ حکومت اس مقصد کے لیے وسائل مہیا کرے گی۔

اس سے قبل سینیٹر فرحت اللہ بابر نے ایک متنازعہ بل واپس لے لیا، جس میں اراکین پارلیمنٹ کو یہ اختیارات دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ حکام اور ایسے لوگوں کو سزا دے سکیں جو ان کے استحقاق کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

انہوں نے اعلان کیا کہ وہ اس لیے یہ بل واپس لے رہے ہیں کہ صحافیوں نے خدشات کا اظہار کیا تھا کہ یہ قانون ان کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں