اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے صوبہ بلوچستان میں لوگوں کو لاپتہ کرنے اور جبری طور پر کمشدگیوں کے مبینہ طور پر ملوث ہونے پر دو ایف سی اہلکاروں کے کورٹ مارشل میں عدم پیش رفت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے رپورٹ طلب کرلی۔

خیال رہے کہ گزشتہ مہینے 26 مارچ کو ہونے والی سماعت میں حکومت نے عدالت کو بتایا تھا کہ وہ دو موجودہ ملٹری افسران کی بلوچوں کی جبری کمشدگی میں مبینہ مداخلت پر وفاقی حکومت 1952ء کے پاکستان آرمی ایکٹ (پی اے اے) کے تحت ان پر مقدمہ چلانا چاہتی ہے۔

جسٹس ناصرا لملک کی سربراہی میں عدالت عظمٰی کے دورکنی بینچ نے بلوچستان میں لاپتہ افراد اور صوبے میں بدامنی سے متعلق کیس کی سماعت گزشتہ روز کی۔

عدالت نے جب سوال کیا کہ دو ملٹری افسران کے خلاف کارروائی میں کیا پیش رفت ہوئی تو صوبائی حکومت اور دیگر حکام میں سے کوئی بھی جواب دینے کا قابل نہیں تھا۔

عدالت نے کہا کہ اس میں پیش رفت سے عدالت کو آگاہ کیا جائے گا۔

سیکریٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ آصف یاسین نے عدالت کو بتایا کہ جبری طور پر گمشدہ کرنے کے واقعات میں ملوث فوجی افسران اور اہلکاروں کا پتہ چلا لیا گیا ہے اور ان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی ہو رہی ہے۔

عدالت میں اجتماعی قبروں سے ملنے والی لاشوں سے متعلق پنجاب فورنسک لیبارٹری کی ڈی این اے رپورٹ بھی پیش کی گئی، تاہم یہ رپورٹ حتمی نہیں تھی۔

جس پر جسٹس ناصر نے برہمی کا اظہار کیا اور فورنسک لیبارٹری کے سینئیر افسران کو آئندہ سماعت پر طلب کرلیا۔

لاپتہ افراد سے متعلق پنجاب اور بلوچستان حکومت کی علیحدہ علیحدہ رپورٹیں بھی عدالت میں جمع کرادی گئیں۔

گزشتہ سماعت کے دوران عدالت نے چیف سیکریٹری بلوچستان، عرفان قادر اور جرائم کی تفتیش کرنے والے محکمے سی آئی ڈی کو ایک اجلاس منعقد کرنے اور ان فوجی افسران کے خلاف کارروائی کے طریقے کا تعین کرنے کا حکم دیا۔

واضح رہے کہ بلوچستان حکومت نے 30 جنوری کو سپریم کورٹ میں یہ تسلیم کیا تھا وہ بے بس ہے کیونکہ اس کا ایف سی پر کوئی مؤثر کنٹرول نہیں ہے جس پر ان افراد کو اٹھانے کا الزام عائد ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں