میڈیا اور نقل بازی کا کینسر

اپ ڈیٹ 24 اپريل 2014
ایسا نہیں کہ میں کوئی پہلا انسان ہوں جس کے خیالات پر نقب لگائی گئی ہو، مگرمیں ایسا آخری انسان بننا چاہتا ہوں
ایسا نہیں کہ میں کوئی پہلا انسان ہوں جس کے خیالات پر نقب لگائی گئی ہو، مگرمیں ایسا آخری انسان بننا چاہتا ہوں

"آئین اور قانون کی بالادستی" یہ وە الفاظ ہیں جو ہوش سنبھالنے کے بعد کافی عرصے تک اخبارات میں پڑھتے آئے تھے. جوانی کی نادان دہلیز پر قدم رکھا تو حالات قدرے بدل چکے تھے اور گھر میں آنے والے اخبار کی جگہ کافی حد تک ایک چیختے چنگھاڑتے ٹیلی وژن نے لے لی تھی۔

اب اِسے کرشمہِ قدرت کہئیے یا قسمت کی ستم ظریفی کہ جب ابا کی لات پڑنے کا وقت آیا (یہاں لات کا زکر صرف محاورتاً کیا گیا ہے ورنہ راوی کی صحت تو ابا کی اونچی آواز کو برداشت کرنے سے بھی قاصر تھی) تو خیر جب وە وقت نزدیک آیا جب ہمیں اپنی ہی لاتوں پہ کھڑے ہونے کا حُکم ملا تو ہم ہلتے جُلتے ٹی وی کی ایک ڈائیریکٹر اور اُس وقت کے اُن کے اسٹنٹ ڈائیریکٹر اور ہمارے پرانے دوست جناب عرفان احمد تک جا پہنچے۔

قصہ مختصر یہ کہ کوئی قریباً بارە سال پہلے کسی نہ کسی طرح ہم میڈیا کی اِس چمچماتی دنیا کا حصہ بن بیٹھے۔ بیٹھے کیا سمجھئیے وە دن ہے اور آج کا دن بیٹھنے کا تو جیسے موقع ہی نہیں ملا۔ یہ جو میڈیا ہے جو دور سے دیکھنے میں ایک حسین پُر تعیُش شعبہ ہونے کا منظر پیش کرتا ہے یہ اُس سے کہیں زیادە مشکل اور محنت طلب کام ہے، مگر صرف اُن لوگوں کے لئیے جنہیں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا نہ صرف علم ہے بلکہ وە جو اپنی صلاحیتوں پر صرف فخر نہیں بھروسہ بھی کرتے ہیں۔ ہاں چور اُچکوں کے لئیے یہ کام بھی اُتنا ہی آسان ہے جتنا اُن کے لئیے کسی اور شعبے میں بیٹھ کر چوری چکاری کرنا۔

خیر جناب توزکر تھا آئین اور قانون کی بالادستی کا، جب سے یہ ٹیلی وژن پرائیوٹ ہوا ہے اور کچھ پرائیوٹ قسم کے لوگ اِس پر آفیشل ہوئے ہیں چیخ و پُکار اور ڈنڈا ڈولی کچھ حد سے آگے ہی نکل گئی ہے اور آئین اور قانون کے لیکچر اب جامعات میں کم اور رات آٹھ بجے سے بارہ بجے تک ہمارے ٹی وی لاوٴنجز میں زیادە ہونے لگے ہیں۔ ہر دوسرا آدمی جسے ٹی وی پر ایک گھنٹہ مل گیا ہے وە صحافی تو چھوڑئے اپنی زات میں ایک مُفکر اور دانشور بنا بیٹھا ہے۔

دانشوری تو چھوڑ حضور صحافت کا 'ص' بھی نہیں جانتے، کچھ تو ایسے ہیں جو بی۔بی۔اے کرنے کے بعد مجھ ناچیز کے پاس اپنی پہلی انٹرنشپ کرنے تشریف لائے تھے اور آج ایک ٹی وی چینل پر بیٹھے اظہارِ رائے کی آزادی سے لے کر صحافتی زمہ داریوں پر فتویٰ جھاڑتے نظر آتے ہیں تو ایک صاحب مارننگ شو ہوسٹ بننے گھر سے نکلے تھے مگر آج اُن کے بھی خوب چرچے ہیں.

چلئیے اِن بیچاروں نے تو پھر تھوڑی بہت محنت کر لی ہوگی جو آج اسکرین پر کہیں نہ کہیں نظر بھی آجاتی ہے مگر کیا کہنے ہیں اُن اینکرز کے جو دراصل ٹیلی پرامپٹر کی ایجاد ہیں یعنی اگر ٹیلی پرامپٹر نہ بنتا تو ہماری زندگیوں میں کم سے کم اِکاون فیصد شور کم ہوتا۔

خیر صاحب قدرت کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے انسان تو بس کوشش ہی کر سکتا ہے تو بس ایسی ہی ایک کوشش اپریل کی 10 تاریخ کو ہم نے بھی کی اور اپنے خیالات کو الفاظ کی شکل دے کر ڈان ڈاٹ کام کو ایمیل کر ڈالا کہ اگر وە مناسب سمجھیں تو چھاپ دیں۔

ایک دن بعد ہی یعنی بروز ہفتہ بتاریخ 12 اپریل 2014 سہہ پہر 3:18 بجے ای میل موصول ہوئی جس میں بتایا گیا کہ ہماری تحریر شائع ہو چکی ہے۔ ہم نے خوشی خوشی فوراً ویب سائیٹ کا لنک اپنے دوست احباب کو ٹوئیٹر اور فیس بُک کے زریعے بھیجا اور لگے ہاتھوں دوستوں یاروں سے دادوتحسین بٹورنا شروع کر دی۔

اگلے ہی روز یعنی بروزِ اتوار رات کے کسی پہر ہمارے ایک دوست نے فیس بُک پر ایک پوسٹ ڈالی جس میں ایک ٹی وی چینل کی ایک غیر معروف سی اینکر پارس خورشید صاحبہ ہمارے ہی لکھے ہوئے الفاظ اس ڈھٹائی سے لہک لہک کر پڑھ رہی تھیں کہ ہمیں خود بھی اپنی زہنی اِختراع اور اُس سے نکلے ہوئے الفاظ کی ملکیت پر شک ہونے لگا اور ایسا لگا جیسے وە خاتون ہمارا لکھا نہیں بلکہ شائید ہم نے اُن کا کہا ہُوبہو لکھ ڈالا ہو۔


خیر صاحب ایک کمزور ادنیٰ سا پاکستانی شور مچانے اور رونے دھونے کے سوا کر بھی کیا سکتا تھا اِس سب کےبیچ غصہ بھی بہت آیا اور بے بسی کے اِس عالم میں غصہ نکلا بھی تو کہاں، صرف اور صرف ٹوئیٹر اور فیس بُک پر۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ اپنے زہن سے کوئی آئیڈیا نکالنا اور اُس کو پایہٴِ تکمیل تک پہنچانے کی تکلیف اتنی ہی ہوتی ہے جتنی اسقاطِ حمل اور ایک بچے کو جنم دینے کی اور جب آپ کا پیدا کیا ہوا بچہ کوئی چوری کر لے تو اِس تکلیف کا احساس صرف ایک ماں ہی جان سکتی ہے جو اِس پروسیس سے گُزری ہو۔

ایسا نہیں کہ میں کوئی پہلا انسان ہوں جس کے خیالات پر نقب لگائی گئی ہو ہاں مگر ایسا ضرور ہے کہ میں ایسا آخری انسان بننا چاہتا ہوں جس کے ساتھ ایسا ہو۔ میں نہیں چاہتا کہ جس کرب سے آج میں گزرا ہوں آنے والے کل میں آپ اور آپ جیسے دوسرے دوست بھی گُزریں. اِسی لئیے تمام تر مخالفتوں کے باوجود میں کھڑا ہو گیا ہوں، کیا آپ ابھی مزید سوچیں گے یا اِس ڈکیتی میں ملوث اُن ہاتھوں کو روکیں گے کیونکہ آئین اور قانون ہم سب کو یہ حق دیتا ہے۔

سرقہ نویسی ایک جُرم ہے اور اِس جُرم کی تشریح بھی اُسی آئین اور قانون کی کتابوں میں موجود ہے جس کی بالادستی کے قصے پارس خورشید چوری کی کہانیوں سے پاکستانیوں کو سناتی پھرتی ہیں۔

صبح شام ٹی وی پر بیٹھ کر آئین اور قانون کی بالادستی کی بانگ دینے والے اِن اینکر حضرات اور ان کے ٹی وی چینلز پر فرض ہے کہ زبانی جمع خرچ سے باہر نکلیں اور آئین اور قانون کی بالادستی کے لئیے اپنا احتساب خود فرمائیں۔

آج 'کتابوں اور کاپی رائٹ کے عالمی دن' کے موقعے پر میں ان تمام نام نہاد سوشل میڈیا چمپیئنز کی عظمت کو سلام کرتا ہوں جن کو میں چیخ چیخ کر مدد کو بلاتا رہا مگر اُنہوں نے میری ایک نہ سُنی اور اُن تمام ہی حضرات بشمول جناب واسع جلیل صاحب، علی رضا عابدی صاحب، فیضان لاکھانی صاحب،عزیز احمد صاحب، محترمہ ثمن جعفری صاحبہ، محترمہ دیا رحمٰن، محترمہ ارم فاروقی، اجمل جامی، فُرقان صدیقی، سمیرا ججہ، ناجیہ اشعر اور غریدہ فاروقی سمیت تمام احباب کا بے حد مشکور ہوں جنہوں نے اِس معاملے کی ناصرف مُزمت کی بلکہ آج بھی میرے ساتھ کھڑے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

waseem Apr 26, 2014 02:54pm
پارس جس دن سے آئی ہیں شروع سے ہی ان کا انداذ ایسا ہے جیسے بول نہیں پڑھ رہی ہوں۔ اس بلاگ کے چھپنےکے بعد انہیں معافی مانگنی چاہئے تھی۔