عالمی ادارے کی جانب سے پولیو کے خاتمے کے لیے بھرپور عزم کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 02 اکتوبر 2014
راولپنڈی کے ایک علاقے میں پولیو کے خاتمے کی مہم کے دوران بچوں کو حفاظتی ٹیکوں کے قطرے پلائے جارہے ہیں۔ —. فائل فوٹو اے پی
راولپنڈی کے ایک علاقے میں پولیو کے خاتمے کی مہم کے دوران بچوں کو حفاظتی ٹیکوں کے قطرے پلائے جارہے ہیں۔ —. فائل فوٹو اے پی

اسلام آباد: پولیو کی نگرانی کرنے والے ایک خودمختار بورڈ (آئی ایم بی پی) کا ایک اجلاس جو بدھ کو برطانیہ میں اختتام پذیر ہوا، میں اس بیماری کے خاتمے کے لیے وفاقی حکومت سے اعلٰی سطح کے عزم کا مطالبہ کیا گیا۔

اس اجلاس میں یہ بھی کہا گیا کہ اس مقصد کے لیے جو ایمرجنسی آپریشن سینٹر قائم کیا جارہا ہے، اس کی زیادہ سے زیادہ کارکردگی کو یقینی بنایا جائے۔

پولیو کے معاملے سے متعلق وزیراعظم کی ترجمان رکن قومی اسمبلی عائشہ رضا نے اس اجلاس میں پریزنٹیشن دیتے ہوئے کہا کہ حکومت پولیو کے خاتمے کے لیے پُرعزم ہے۔

انہوں نے کہا ’’جون سے اب تک وزیراعظم کو اس معاملے پر دو بریفنگ اور ان کی صدارت میں منعقدہ کابینہ کے ایک اجلاس کو ایک بریفنگ دی جاچکی ہے۔ اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے اس بیماری کے خاتمے کی مہم میں حصہ لینے اور ان کے حلقہ انتخاب میں پولیو کے قطرے پلوانے سے والدین کے انکار سے نمٹنے کے حوالے سے ایک قرارداد قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر منظور کی گئی تھی۔‘‘

عائشہ رضا نے کہا کہ ’’پولیو کے خاتمے کے لیے فنڈز کی فراہمی کے حوالے سے پی سی ون منظور کردیا گیا ہے، لہٰذا 2018ء تک اس حوالے سے رقم کی کوئی قلت نہیں ہوگی۔‘‘

ان کا کہنا تھا ’’امریکی حکومت بھی وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں اور ان کے نزدیک واقع خیبر پختونخوا کے گیارہ ضلعوں میں پولیو کے خاتمے کے لیے فوج کے ذریعے اپنی امدادی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ ‘‘

انہوں نے کہا کہ اس سال پولیو کے 91 فیصد کیسز ان علاقوں سے رپورٹ کیے گئے ہیں، جہاں حفاظتی ٹیکوں کی مہم میں رکاوٹیں حائل ہیں۔

عائشہ رضا نے کہا کہ پولیو کے خاتمے کے لیے کم منتقلی کے موسم کے دوران حفاظتی ٹیکوں کی بڑے پیمانے پر مہم کے انعقاد کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔

وزیر برائے نیشنل ہیلتھ سروسز سائرہ افضل تارڑ نے پولیو کی نگرانی کرنے والے خودمختار بورڈ (آئی ایم بی پی)کو مطلع کیا کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے وفاق اور صوبائی سطح پر بین الوزارتی کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں۔


پاکستان میں پولیو کا 14سالہ ریکارڈ ٹوٹنے کے قریب


ایک اہلکار نے بتایا کہ آئی ایم بی پی کی تفصیلی رپورٹ توقع ہے کہ تقریباً تین ہفتوں میں جاری کردی جائے گی۔

اس اجلاس کی صدارت سر لائم ڈونلڈسن نے کی۔ یہ بورڈ بین الاقوامی ڈونر ایجنسی کی طرف سے کام کرتا ہے، اور ہر چھ مہینے کے بعد ان ملکوں کی کارکردگی سے متعلق اپنی رپورٹ شایع کرتا ہے۔

یاد رہے کہ نومبر 2012ء میں اس نے پاکستان پر سفری پابندیوں کی سفارش کی تھی، جن کا نفاذ اس سال مارچ میں کیا گیا تھا۔

دو جون کو آئی ایم بی پی نے پاکستان کے لیے اپنی سفارشات جاری کی تھیں، جس میں وزیراعظم کے پولیو سیل کو خیالی جنگ میں مصروف ادارہ قرار دیا تھا۔

اس نے یکم جولائی سے قبل ’پولیو کے لیے ایک ہنگامی آپریشن سینٹر‘ کے قیام کی سفارش کی تھی۔

اس سینٹر کا افتتاح کیا جاچکا ہے، لیکن توقع ہے کہ یہ اکتوبر کے وسط تک کام کرنے لگ جائے گا۔

پولیو کے تین نئے کیسز کی تصدیق:

ادارۂ قومی صحت پر قائم پولیو وائرولوجی لیبارٹری نے پولیو کے تین نئے کیسز کی تصدیق کردی ہے۔ اس طرح اس سال رپورٹ کیے جانے والے پولیس کیسز کی تعداد بڑھ کر 187 تک جا پہنچی ہے۔

وزارتِ نیشنل ہیلتھ سروسز کے ایک اہلکار کے مطابق یہ تینوں کیسز وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقے کی خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ سے رپورٹ کیے گئے ہیں۔

اس سال زیادہ تر پولیو کیسز فاٹا سے رپورٹ کیے گئے، جن کی کل تعداد 130 ہے۔

پولیو سے متاثرہ ہونے والے ان بچوں کے نام یہ ہیں، گلاب خان کی نو ماہ کی بیٹی عالیہ ، فقیر حسین کی بیٹی نادیہ، جس کی عمر گیارہ ماہ ہے اور مقدس کے تیرہ ماہ کا بیٹا حاضر۔

حکام کا کہنا ہے کہ نادیہ نے صرف ایک مرتبہ پولیو ویکسین کے قطرے پیے تھے جبکہ دیگر دونوں بچوں نے پولیو ویکسین کی کوئی خوراک نہیں لی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں