میں سوچتی تھی کہ ترقی پذیر ممالک کیسے اپنے قیمتی اثاثے خلائی پروگرامز پر لگا سکتے ہیں جب ان کی عوام بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہو لیکن اب وقت، ٹیکنالوجی اور میرے خیالات بدل چکے ہیں۔
اگر ہم ملک کے تمام بچوں کو معیاری تعلیم تک رسائی فراہم کرنے کے اپنے وعدوں پر عمل کرنا چاہتے ہیں تو فوری طور پر جامع کام کرنے کی ضرورت ہے اور اگر یہ کام ایمرجنسی کی آڑ میں ہو تو ایسا ہی صحیح۔
اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے پی ٹی آئی کو دیوار سے لگانے کے کوئی مثبت اثرات سامنے نہیں آئیں گے بلکہ یہ تو ایک بری خبر ہے جو ہمیں زیادہ ٹیکسز اور بلز کی صورت میں دیکھنے کو ملے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ ٹیلی ویژن نے 1960ء کی دہائی میں اپنے قیام کے بعد پاکستانیوں کی زندگی میں بے شمار تفریحی اور تہذیبی رنگ بھر دیےجو آج بھی دل و دماغ پر نقش ہیں۔
غزہ میں موجود صحافیوں کے لیے انسانی مصائب، خون ریزی، ذہنی تھکن، اور یہ خدشہ کہ اگلی ہلاکت کی اطلاع ان کے کسی پیارے کی بھی ہوسکتی ہے، ان کے لیے رپورٹنگ کو انتہائی مشکل بنادیا ہے۔
روانگی کے وقت دل اداس ہورہا تھا لیکن اس بات کی خوشی تھی کہ ہم نے اندلس بھی دیکھا اور جدید دور کے اسپین کے بھی مزے لوٹے، یعنی ان سات دنوں کے ہر لمحے سے ہم نے لطف اٹھایا۔
مونسٹر ورس سلسلے کی پانچویں اور تازہ ترین فلم پاکستان سمیت دنیا بھر کے باکس آفس پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہی ہے اور ہر گزرتا دن اس کی پسندیدگی میں اضافہ کررہا ہے۔
یہ بات ہمیشہ سے کی جارہی ہے پاکستان کے سینما میں دیگر ممالک کی فلموں کو موقع دینا چاہیے تاکہ ہماری انڈسٹری ترقی پائے، سجن فلم کا پاکستان میں کامیاب بزنس اسی سلسلے کی پہلی کامیابی ہے۔
ڈاکٹر امجد پرویز محبت کے آدمی تھے جنہوں نے زندگی کو ہمہ جہت شخصیت کے طور پر بسر کیا، ایک منظم انداز میں اپنا وقت خرچ کیا اور بدلے میں شہرت، محبت پائی اور اپنے ملک کا نام پوری دنیا میں روشن کیا۔
آٹزم کوئی بیماری نہیں بلکہ یہ وہ ذہنی حالت ہے جس میں بچے مختلف انداز میں سوچتے ہیں، والدین کو سمجھنا چاہیے کہ آٹزم کو ختم نہیں کیا جاسکتا لیکن بچوں کی زندگی ضرور بہتر کی جاسکتی ہے۔
پاکستان میں کم و بیش 24 لاکھ لوگوں کو مرگی کا مرض لاحق ہے، اس مرض کی بدقسمتی سمجھیں یا ہمارے معاشرے کی کم علمی کہ تاحال اس دماغی عارضے کو صرف بیماری کے علاوہ بہت کچھ سمجھا جاتا ہے۔
اگر ہم ملک کے تمام بچوں کو معیاری تعلیم تک رسائی فراہم کرنے کے اپنے وعدوں پر عمل کرنا چاہتے ہیں تو فوری طور پر جامع کام کرنے کی ضرورت ہے اور اگر یہ کام ایمرجنسی کی آڑ میں ہو تو ایسا ہی صحیح۔
جنسی جرائم میں سزا بڑھانا یا مردانگی کے حوالے سے تصورات تبدیل کرکے جنسی استحصال کا خاتمہ نہیں کیا جاسکتا۔ حقیقی تبدیلی اسی وقت آئی گی جب متاثرہ بچے یا خواتین آواز اٹھانے کی ٹھانیں۔