کچرہ چننے والوں کی زندگی میں عارضی انقلاب

اپ ڈیٹ 02 ستمبر 2014
تیرہ برس کے بخت جان اور چودہ برس کے شاکر جان دھرنے کے مقام سے اکھٹا کی گئی خالی بوتلوں کے ساتھ۔ —. فوٹو ڈان
تیرہ برس کے بخت جان اور چودہ برس کے شاکر جان دھرنے کے مقام سے اکھٹا کی گئی خالی بوتلوں کے ساتھ۔ —. فوٹو ڈان

اسلام آباد: شاکر جان ان دنوں بہت خوش ہے، اس لیے کہ اسے اب صبح سویرے بیدار نہیں ہونا پڑتا۔

پشاور سے تعلق رکھنے والا یہ چودہ برس کا لڑکا پچھلے چار سالوں سے اپنے گھروالوں کے ساتھ اسلام آباد کے سیکٹر آئی-11 کی کچی آبادی میں مقیم ہے۔

شاکر جان نے بتایا ’’میرے لیے ضروری ہے کہ میں صبح سویرے بیدار ہوجاؤں، اس لیے کہ میں اپنے گھروالوں کی روزی کمانے کے لیے کچرہ چننے کا کام کرتا ہوں۔‘‘

اس کا مزید کہنا تھا کہ اس کے صبح سویرے بیدار ہوکر دارالحکومت کے مختلف سیکٹروں سے کچرہ جمع کرنا مشکل کام تھا، خاص طور پر ایسے وقت میں جب کہ دوسرے بچے سڑکوں پراسکول کی بسوں کا انتظار کررہے ہوتے ہیں۔

شاکر جان مختلف مقامات سے دن گیارہ بجے تک کچرہ اکھٹا کرتا ہے، جس سے اس کو بمشکل دو سو روپے حاصل ہوتے ہیں۔

تاہم جب سے پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے احتجاج شروع ہوا ہے، وہ باآسانی روزانہ تین سو سے چار سو روپے کمالیتا ہے۔

شاکر نے بتایا ’’میں تقریباً دس بجے اُٹھتا ہوں اور کچرہ اکھٹا کرنے ڈی چوک اپنی سائیکل پر پہنچ جاتا ہوں۔ تقریباً تین ہفتوں سے میں اپنا بیگ کچرے سے باآسانی بھر لیتا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ یہ مظاہرین ڈی چوک پر ہمیشہ موجود رہیں، اس لیے کہ میرے لیے اپنے اور اپنے خاندان کے لیے روزی کمانا آسان ہوگیا ہے۔‘‘

سیکٹر آئی-11 کی کچی آبادی کے رہائشی تیرہ برس کے بخت خان کا بھی یہی پیشہ ہے۔

بخت جان نے کہا ’’میرے ایک دوست نے مجھے بتایا، کہ میں اس کے ساتھ ریڈزون سے کچرہ اکھٹا کرنے چل سکتا ہوں۔ پچھلے چند دنوں سے میرے لیے ایک ہی جگہ سے بوتلیں، شاپنگ بیگز اور ڈبّے اکھٹا کرنا بہت آسان ہوگیا ہے، اس کی وجہ یہاں مظاہرین کی موجود گی ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ مظاہرین کی استعمال شدہ پینے کے پانی بوتلیں اور کھانے کے ڈبّے پھینک دیتے ہیں، اور اسکریپ کی دکان مالکان پلاسٹک کی بوتلیں خریدنا پسند کرتے ہیں۔

شاکر جان اور بخت جان کی طرح بارہ کہو کے بتیس سالہ وقاص خان کا کہنا تھا کہ وہ بھی اپنے گھروالوں کی روزی کمانے کے لیے کچرہ اکھٹا کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا ’’اس سے پہلے میں عام طور پر مختلف مقامات سے کچرہ اکھٹا کرنے کے لیے صبح سویرے بیدا ہوجاتا تھا۔ لیکن اب میں ڈی چوک پہنچتا ہوں اور کچرہ اکھٹا کرلیتا ہوں۔‘‘

وقاص خان نے کہا کہ یہ کچرہ چننے والوں کے لیے بہت اچھی بات ہے کہ کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کا عملہ ریڈ زون سے کچرہ نہیں اُٹھا رہا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا ’’میں یہاں سے روزانہ پانچ سو روپے کمارہا ہوں،جبکہ شہر میں دھرنوں کے آغاز سے پہلے تین سو روپے کمانا بھی مشکل تھا۔‘‘

کچرہ چننے والوں کے مطابق ریڈزون سے دو سو مزدور کچرہ اکھٹا کرتے ہیں، مظاہرین کی موجودگی کی وجہ سے انہیں اپنی روزی کمانا نسبتاً زیادہ آسان ہوگیا ہے۔

تبصرے (2) بند ہیں

راضیہ سید Sep 02, 2014 12:47pm
اگر ہم سوچیں ناں تو ان تمام بچوں کے انداز میں ایک حسرت نظر آتی ہے کیونکہ یہ وہ بچے ہیں کہ جن کے ہاتھ میں ہمیشہ قلم ، دوات ، کاپی یا پنسل ہونی چاہیے کہ یہ عمر ہی ان معصوم کلیوں کے کھلنے کی ہوتی ہے لیکن افسوس کہ یہ چھوٹے چھوتے ہاتھ آپ کو ورکشاپوں میں گاڑیوں کی مرمت کرتے ، سڑکوں سے کچرا چنتے ، ہوٹلوں میں برتن مانجھتے اور اسی طرح کے دیگر مشقت والے کام کرتے ہوئے دکھائی دیں گے ، اور نہایت افسوسناک بات یہ ہے کہ اول تو انھیں تنخواہ نہیں دی جاتی کہ یہاں پر تمھیں رہائش اور کھانا دیا جا رہا ہے اس لئے تنخواہ کا تقاضا نہ کرنا اور اگر تنخواہ دی بھی جاتی ہے تو وہ بھی ناکافی کہ حسرت ناتمام ناتمام ہی رہ جاتی ہے ۔ کیا ہمارے حکمرانوں یا ابھی احتجاج کرنے والوں کو یہ بچے نظر نہیں آتے یا انقلاب اور آزادی صرف آپ کے بچوں کا ہی مقدر ہے کیونکہ آپ کے بچے باہر پڑھیں ، وہ کفن نہ پہنیں ، وہ شہید نہ ہوں ، بس یہ بچے آپ کو ہر وقت بدحال نظر اٗئیں اور وہ بھی اس لئے کہ ان کا مقدر آپ جیسے لوگ لکھ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Dr.Salim Haidrani Sep 04, 2014 05:06pm
Shankar Jan lives just few miles from the Pakistani Parliament as a day labourer where Law Makers are planning to save the democracy from a Protest Movenment which had threatened the elected government. The duty of the Parliament, Prime Minster, elected MPs and the Law Agencies is to protect children from abuse and child labour. Does Pakistan have Labour Laws? I am sure Pakistan have labour laws and child labour is illegal but Pakistani ruling elite have no respect for poor children and poverty in Pakistan. We know ruling elite have been sending their children to London, New York and Paris to become Westernised and come back to sit again in the corridors of power. Nawaz Shrif must take a look at Shakir Jan and invite him to the Parliament and ask him - why are you not at school today? Wait for the answer from Shakir Jan.