'تین لاکھ افراد بلوچستان سے نقل مکانی پر مجبور'

اپ ڈیٹ 14 اکتوبر 2014
ایچ آر سی پی کی چیئرپرسن زہرہ یوسف کوئٹہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کررہی ہیں۔ —. فوٹو آئی این پی
ایچ آر سی پی کی چیئرپرسن زہرہ یوسف کوئٹہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کررہی ہیں۔ —. فوٹو آئی این پی

کوئٹہ: پاکستان میں انسانی حقوق کے کمیشن (ایچ آر سی پی) کی چیئرپرسن زہرہ یوسف نے کہا ہے کہ بلوچستان کو ایک منصوبے کے تحت مسلح مذہبی انتہاء پسندوں کے لیے ایک زرخیز مقام بنادیا گیا ہے، جس کا نتیجہ ہے کہ تقریباً تین لاکھ کی تعداد میں شیعہ، ذکری اور ہندو ملک کے دوسرے علاقوں کی جانب نقل مکانی کرگئے ہیں۔

یہاں اتوار کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بلوچستان میں تحفظ کی کمی کی وجہ سے شیعوں، ذکریوں اور ہندوؤں کی نقلِ مکانی پر تشویش کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ مذہبی انتہاء پسندوں کے طاقتور ہونا معصوم شہریوں کی نقلِ مکانی کا سبب تھا، لیکن انہیں قوت بخشنے کا حقیقی مقصد بلوچ قوم پرست عسکریت پسندوں کو کمزور کرنا تھا۔

پاکستان میں انسانی حقوق کے کمیشن (ایچ آر سی پی) کی سربراہ نے کہا کہ موجودہ حکومت کے تحت صوبے میں کسی حد تک امن و امان کی صورتحال میں بہتری آئی تھی، لیکن خصوصاً تربت اور پنجگور میں مسخ شدہ لاشیں پھینکے جانے سے انتظامیہ کی کارکردگی متاثر ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ انتہائی سنگین اور حساس ہے، اور کمیشن اس پر پہلے دن سے کام کررہا ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ متاثرہ خاندان محض زبانی یقین دہانیوں سے مطمئن نہیں ہوسکتے، اور لاپتہ افراد کی جلد از جلد تلاش کی ذمہ داری حکومت پر ہے۔

زہرہ یوسف نے صوبے میں تعلیم اور صحت کی خستہ حال سہولیات، ناقص اقتصادی صورتحالپر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سماجی شعبوں میں ترقی نہ ہونے کے نتیجے میں نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع ختم ہوگئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کیا گیا تھا، لیکن اس کا لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا، اس لیے کہ منتخب نمائندوں نے اب تک حلف نہیں اُٹھایا ہے اور انہیں ان کی ذمہ داریاں نہیں سونپی گئی ہیں۔

ایچ آر سی پی کی چیئرپرسن کا کہنا تھا کہ سیکورٹی فورسز اب بھی سویلین معاملات میں مداخلت کررہی ہیں، اور فوج نے بلوچستان کے مسائل پر اپنی سوچ کو تبدیل نہیں کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ صوبے کو موجودہ بحران سے باہر نکالنے کے لیے علیحدگی پسندوں سے مذاکرات میں کوئی نقصان نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میڈیا کے چالیس اہلکاروں کو پچھلے چند سالوں کے دوران بلوچستان کے اندر ٹارگٹ کلنگ میں نشانہ بنایا گیا تھا، لیکن کسی ایک قاتل کو بھی گرفتار نہیں کیا گیا۔

زہرا یوسف نے کہا کہ کوئٹہ میں فرنٹیئر کور کی چوکیوں کی تعداد میں کمی اور یہاں اور مستونگ میں خواتین پر تیزاب پھینکنے کے حملوں کے ساتھ ساتھ اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں کمی اچھی علامات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کمیشن نے بلوچستان کے مسائل پر اپنی سفارشات وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو پیش کی تھیں، لیکن ان پر اب تک کوئی عملدرآمد نہیں کیا گیا۔

ایک سوال کے جواب میں ایچ آر سی پی کی سابق سربراہ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری پر الزامات عائد کیے تھے، لیکن جب انہیں عدالت میں طلب کیا گیا تھا تو انہوں نے ان کی حمایت کی تھی، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے اندر موجودہ اتھارٹی کےسامنے سچ بولنے کی ہمت کا فقدان ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک ریٹائرڈ شخص کے خلاف الزامات عائد کرنا کوئی اچھا رویہ نہیں تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں